وہ کشمیر جسے جنت نظیر کہتے ہیں اس کا ایک ٹکڑا نیلم کہلاتا ہے۔ ودیا گیان کے اسی پراچین استھان سے جناب بشیر مراد کے آبا کا تعلق ہے اور یہی ان کے صفر نامے کا زیرو پوائنٹ ہے۔لفظ 'صفر نامہ' میری سماعتوں سے پہلی بار ٹکرایا تو خیال گزرا کہ مسافر پر عمررواں کی رائیگانی کا احساس غالب آ گیا ہو گا، پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگا ہو گا، کسی نگر سے بے آبرو ہو کر نکلا ہو گا، کسی آنکھ میں ڈوب گیا ہو گا، کسی زلف کا اسیر ہو گیا ہو گا یا ہم سفر گریز پا نکلا ہو گا۔ لیکن صفر نامہ پڑھا تو اپنی بد گمانیوں پر شرمندگی ہوئی کہ صفر نامہ ایک تخلیق کار مسافر کی سفر کے بعد سفر میں رہنے والی کیفیت کا عنوان ہے۔ فسوں کار مصنف نے نام سے چھتہ ہی نہیں چھیڑا، چھتے سے شہد بھی بڑی مہارت سے کشید کیا ہے۔
صفر
نامہ پر پہلی نظر پڑی تو میں اس شش و پنج میں پڑ گیا کہ یہ لفظ صفْر ہے یا صفَر؟ ایک
میں ٹھہر ٹھہراؤ ہے اور دوسرے میں چل چلاؤ۔ یہ دونوں صفات صفر نامہ میں موجود ہیں۔
کہیں تو قاری علم و انشا کے نیلم میں تنکے کی طرح بہتا چلا جاتا ہے اور کہیں افکار
کے بھنور میں ڈبکیاں کھانے لگتا ہے۔
صفر
نامہ کے سرورق پر سفری مزاح لکھا ہوا ہے۔ لیکن یہ مزاح گدگدی کی بجائے سرخوشی پیدا
کرتا ہے۔ بشیر مراد لفظوں سے اس طرح کھیلے ہیں اور ایسی ایسی تراکیب وضع کی ہیں کہ
بے اختیار مشتاق احمد یوسفی یاد آتے ہیں۔ اس لیے اسے کنڈورا سے خنجراب تک کی
علمی، ادبی، تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی دستاویز کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
فردوسِ بریں کو شش بہشت میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ٹورسٹ جو سفر کچھ دنوں میں طے کر لیتے
ہیں، صفر نامہ کے مبشر اور بامراد مسافر نے سالوں میں طے کیا ہے۔ ذوقِ دید ہو تو
ہر جا جہان دیگر ہے۔ بشیر مراد کی نظر منظر کا ہشت پہلوی مشاہدہ کرتی ہے۔ نظارہ
احساس کی دھنک رنگ آمیزش سے تحیّر خیز ہو جاتا ہے۔ یہی پُر شکوہ تخلیقی شگفتہ بیانی
بشیر مراد کی شناخت ہے۔
بشیر
مراد پر خوش نصیبی فریفتہ ہے۔ شکل، قامت، لباس، آواز اور ادا کے ساتھ ساتھ صاحبِ
طرز خوش بیان بھی ہیں۔ لفظ کو صوت اور صوت کو صورت میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔
اس جادوئی منظر کشی نے سفر نامے کو البم بنا دیا ہے۔ صفحہ صفحہ شش بہشت کی دلکشی،
شادابی اور خوشبو سے لبریز ہے۔
صفر
نامہ آپ اپنی مرضی سے نہیں پڑھ سکتے۔ جگہ جگہ آپ کو رکنا پڑتا ہے۔ خصوصاً شگفتہ بیان
جب قلم کو نشتر بناتا ہے تو کھکھڑی کی کاش میں تمّے کی تلخی در آتی ہے۔ مجھے صفر
نامہ پڑھ کر پتا چلا کہ ع ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم چلے جانا، آفتاب مضطر کا
کلام ہے۔ میں اب تک نادم ہوں کہ میں نے شاعر کا نام جاننے کی جستجو نہیں کی۔
بشیر
مراد مبارک باد کے مستحق ہیں کی 'بے ادبیاں' نصاب میں شامل کر لی گئیں۔ لیکن لگتا
ہے کہ صفر نامہ کو نصابی کتاب بنانے میں انہیں دلچسپی نہیں ہے۔ علامہ کے مشہور شعر
کی تحریف اس کے مضمرات سے بے نیاز ہو کر یوں کرتے ہیں ؎
ایک
ہی بیڈ پہ پڑے سو گئے محمود و ایاز
نہ
کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
صفر
نامہ اختصار کا مرقع ہے۔ شگفتہ نگار نے کوزے میں نیلم، جہلم، پونچھ اور سندھ
کے سارے صدف بھر دیے ہیں۔ فقیر ذوالفقار علی اسد سے لے کر پیر سید معراج جامی
تک کسی ہم سفر کو نہیں چھوڑا ۔۔۔ لیکن یہ ذکر اتنا برجستہ اور برمحل ہے کہ مصنف
مرصع کار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ لفظ تراشنے اور ان سے جملے کی مالائیں
پرونے کا گر جانتے ہیں۔ اس لیے صفر نامے پر سلکِ گوہر کا گماں گزرتا ہے۔
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔