ہم تاریخ کے دشت میں دیوانہ وار داخل تو ہو گئے لیکن جلد ہی یہ احساس بھی ہو گیا کہ اس دشتِ پرخار کے ظلمات کوعبور کرنے کے لیے صرف شوقِ سفر کافی نہیں، خضرِ راہ کی بھی ضرورت ہے اور یہی تلاش ہمیں بوئی گاڑ، ٹیکسلا کے خضر صورت راجہ نور محمد نظامی تک لے گئی۔
عرضِ مطلب کیا تو متعلقہ کتب کے مصنفین، سن اشاعت، پبلشرز اور اندازاً صفحہ نمبر تک بتا دیے۔ ایک منٹ میں کتابیں نکل آئیں۔ متعلقہ صفحات کی تصاویر بنیں۔ پرتکلف ظہرانے کے بعد راجہ صاحب نے بڑی محبت سے لگائے گئے باغِ علم کی سیر کرائی تو دل شاد ہو گیا۔
کتب خانہ راجہ نور محمد نظامی اپنے نادر علمی ذخیرے کے باعث اپنی مثال آپ ہے۔ محقق شوقِ تحقیق میں کھنچے چلے آتے ہیں ۔ نادر و نایاب کتابوں کی رنگا رنگی کتاب کے متوالوں کے دامنِ دل کو کھینچتی ہے۔ گھر میں ہونے کے باوجود کتب خانے کے دروازے محققین کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ علم دوستی کی ایسی مثالیں اس دور میں نایاب ہیں۔
تاریخ و تذکرہ، مذہب، تصوف، آثار قدیمہ، انشا، لغات، مکاتیب، اقوام و قبائل وغیرہ پر یہاں کتابوں کی تعداد تیرہ ہزار ہے۔ جن میں بڑی تعداد تاریخ و تذکرہ پر ہے۔ بہ قول راجہ نور محمد نظامی پاکستان میں اس موضوع پر یہ بہترین کلکشن ہے۔
کتب خانے میں زیادہ تر کتابیں اردو میں ہیں۔ اس کے علاوہ عربی، فارسی، پنجابی، پشتو اور سندھی میں کتب موجود ہیں۔ اس میں کچھ نادر و نایاب نسخے شامل ہیں۔ سات سو سالہ پرانی کتابوں سے لے کر جدید کتب کا یہ شاندار ذخیرہ بہت بہترین حالت میں موجود ہے۔ ان میں ہند کی تیئس سو سالہ تاریخ، پاکستان کے شہروں کی تاریخ، ساڑھے تین سو سے زائد خطی نسخے، تین ہزار سے زائد مجلے شامل ہیں۔ ان میں ہزارہ کے لکھاریوں کی پانچ سو اور اٹک کے لکھاریوں کی ایک ہزار سے زائد کتب ہیں۔ ان میں سب سے پرانی کتاب ڈیڑھ سو سال پہلے کی ہے۔ نظامی صاحب کے بقول یہاں پربعض ایسے مخطوطات بھی موجود ہیں جو اور کہیں نہیں پائے جاتے۔
وقت نے کتاب سے انسان کا تعلق کو کمزور بنا دیا ہے۔ اب اس کی ضرورت انہی لوگوں کو رہ گئی ہے جو اپنی ڈگری کے لیے کتابیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ خالص کتاب کے لیے سرگرداں دیوانوں کی فہرست مرتب کی جائے تو راجہ نور محمد نظامی کا نام سرِ فہرست ناموں میں ہو گا۔ آپ پندرہ سال کی عمر سے یہ شوق پالے ہوئے ہیں۔ چالیس سال ہو چکے ہیں۔ کتاب ان کا عشق ہے۔ جان مال وقت ـــــ ہر چیز کتاب کے لیے وقف ہے۔ کسی خاص کتاب کی بھنک پڑ جائے تو رکاوٹیں اور فاصلے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ کراچی، کوئٹہ، گلگت تک کا سفر صرف کتاب کے لیے کر چکے ہیں۔ ہندوستان، افغانستان، ترکی تک سے مواد منگوایا ہے۔ کتاب مدینہ، بہار، کراچی اور دوسرے شہروں سے کشاں کشاں سفر کرتی بوئی گھاڑ پہنچ جاتی ہے۔ کتابوں کی حفاظت کے لیے انہیں حرکت میں رکھتے ہیں۔ صفائی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ ساون میں دھوپ لگائی جاتی ہے۔ حفاظتی ادویات کا چھڑکاؤ ہوتا ہے۔
کتاب کے حوالے سے نظامی صاحب کو کچھ تلخ تجربات سے بھی گزرنا پڑا۔ ان کے بقول ان کی پندرہ سو کتابیں لوگ پڑھنے کے لیے مانگ کر لے گئے اور واپس نہیں ملیں۔ ان میں معززین شامل ہیں۔ اس لیے کتاب یہیں دیکھی جا سکتی ہے۔ وڈیو بنا لیں یا تصویر اتار لیں۔ لیکن کتاب باہر نہیں جا سکتی۔
نظامی صاحب کتاب کے مسقبل کے حوالے سے پر امید ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح ڈھائی ہزار سالہ پرانے خطی نسخے موجود ہیں اسی طرح صدیوں بعد بھی کتاب موجود رہے گی۔ انسان ختم ہو جاتا ہے لیکن کتاب ختم نہیں ہو سکتی۔
کتاب کے علاوہ آپ آثارِ قدیمہ کے بھی شائق اور پارکھ ہیں۔ آپ کے کتب خانے میں ایک دنیا زمین پر آباد ہے۔ ان میں پرانے سکے، نوٹ، ڈاک ٹکٹ، قدیم تحریریں، مکتوبات، برتن، گھڑیاں، اسلحہ تلواریں، خنجر، بھالے، انگشتریاں شامل ہیں۔ یہاں پتھراورہڈی کے بنے ہوئے اوزار بھی موجود ہیں۔ یہاں آج سے پانچ ہزار سال پہلے تک کے سکے ہیں۔ ایک سکہ چار ہزار سالہ پرانا ہے جو ہڑپہ سے ملا ہے۔ یہاں کچھ کرڑوں سالہ پرانے فوسلز ہیں۔
مٹی سے محبت دیکھیے کہ آپ علاقے کا چپہ چپہ چھان اور کونہ کونہ کھوج چکے ہیں۔۔ کوئی نالہ، خرابا، باولی، ڈھیری، ایسی نہیں ہے جو آپ سے رہ گئی ہو۔ آپ کے بقول ٹیکسلا سے ہری پور کے درمیان قدیم آثار کی کثرت ہے۔
آپ ٹیکسلا کو تاریخ کے ماتھے کا جھومر کہتے ہیں۔ چھٹی صدی ق م میں یہ ایران کے ماتحت تھا۔ 327 قبل مسیح میں سکندر یہاں آیا۔ موریا، باختری، کشان اور ساسانیوں نے یہاں حکومتیں کیں۔ یہ گندھارا تہذیب کے اہم مراکز میں سے ایک ہے۔ یونانیوں نے یہاں ایک نیا شہر سِرکپ آباد کیا ۔ جس کی پتھریلی باقیات اس کے تعمیراتی نظم و ضبط کی گواہ ہیں۔ زیادہ ترباقیات پہلی سے پانچویں صدی عیسوی کی ہیں۔ کتب خانہ نور محمد نظامی میں ٹیکسلا کی تاریخ پر بے شمار مواد اور کم از کم پندرہ کتابیں موجود ہیں۔
سٹوپوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ بنیادی طور پر بدھ راہبوں اور رشیوں کے مزارات ہیں جو ان کی مرتبت کے مطابق بنائے جاتے تھے۔ بتدریج کم ہوتے ہوتے یہ قبر کی شکل میں بھی موجود ہیں۔ یہ سٹوپے پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ میدانوں میں بھی بنائے گئے ہیں۔ ان میں سب سے اہم دھرما راجیکا سٹوپا ہے جو تیسری صدی کا ہے۔ روایات کے مطابق اشوک نے اپنے بیٹے کنالہ کی بینائی کی بحالی کی خوشی میں ایک سٹوپا بنوایا جو کنالہ سٹوپا کہلاتا ہے۔
گندھارا آرٹ اور تہذیبی میراث کے نادر نمونے اس علاقے میں جگہ جگہ مدفون ہیں۔ ٹیکسلا کی قدیم تہذیب کی باقیات کی تلاش کے لیے پہلی مرتبہ کھدائی آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے 1913 میں سر جان مارشل کی سربراہی میں شروع کی تھی جو 1934 تک جاری رہی۔ ٹیکسلا میوزیم میں 700 سے زائد نوادرات محفوظ ہیں۔
اپنے گاؤں بھوئی گاڑ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہاں قدم قدم پر قدیمہ آثار ملتے ہیں جو ہمارے پرکھوں کی یادگار ہیں۔ مگرلوگوں میں اس کا شعور نہیں ہے۔ بچپن میں بارش کے بعد ہم گاوں سے باہر سکے چننے جاتے تھے۔ بھوئی گاڑ میں تین سٹوپے تھے۔ چونکہ بدھ مردے کی ہڈیوں کے ساتھ دیگر قیمتی اشیاء اور ظروف وغیرہ بھی دفن کرتے تھے اس لیے خزانے کے متلاشیوں نے دو سٹوپوں کو کھود ڈالا ہے۔ ٹیکسلا حطار روڈ پرموجود بھلڑ سٹوپا بھی گر گیا تھا موجودہ سٹوپا پانچویں صدی عیسوی کا ہے۔ روایت ہے کہ مہاتما بدھ نے ایک بھوکے شیر کو یہاں اپنے جسم کا کوئی حصہ کھلایا تھا۔ اس کی مصفا چنائی ہے اور تعمیراتی حسن کا شاہکار ہے۔ اونچائی پر ہونے کی وجہ سے اس کی اٹھان قابلِ دید ہے۔
جناب نور محمد نظامی پوٹھوہار کی قدیم تاریخ وتہذیب پر اتھارٹی کا درجہ رکتھے ہیں اور اس موضوع پر بے تکان بولتے ہیں۔ بند ماضی کے جب در وا کرتے ہیں تو سماعتیں مر مٹتی ہیں۔ حالات کا جبر کہیے کہ آپ تعلیم حاصل نہیں کر سکے ورنہ کسی یونیورسٹی کے شعبہء تاریخ یا آثارِ قدیمہ کے سربراہ ہوتے۔ جو کچھ ملا ماحول سے ملا۔ گاؤں میں علما کے خانوادے تھے جہاں سے کتاب کا شوق پیدا ہوا۔ طویل سیاحت، مطالعے، مشاہدے اور سب سے بڑھ کر جنون نے آپ میں عالمانہ استدلال کی اہلیت پیدا کر دی ہے۔دلیل اور حوالے کے بغیر کوئی بات نہیں کرتے۔ پتھر آپ کے ہاتھ میں کلام کرنے لگتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ ڈاکٹر احمد حسن دانی اور ڈاکٹر سلیم اختر سے راہنمائی بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔
آپ کے نوے کے قریب تحقیقی مقالے مجلہ تاریخ و ثقافت، معیار، پیغامِ آشنا وغیرہ میں چھپ چکے ہیں۔ علما و مشائخ کے تذکروں کے بہت سے مسودے رقم کر چکے ہیں۔ سات سو صفحات پر مشتمل آپ کی کتاب '' تاریخ و تذکرہ گڑھی افغاناں'' کئی اور کتابوں کے مسودے تیار ہیں۔ ایک سفر نامہ ''ہرو کے ساتھ ساتھ'' زیرِ ترتیب ہے۔ اس کے علاوہ ''راولپنڈی تاریخ کے آئینے میں'' پر کافی کام ہو چکا ہے۔
زر پرستی کے اس دور میں کتاب پرستی کی اس منفرد مثال پر راجہ نور محمد نظامی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اپنی مٹی کو سونا سمجھنے والے اس آشفتہ سر کا کام اس معیار کا ہے کہ کوئی جامعہ انہیں اعزازی ڈگری عطا کرے۔جمالیات اٹک کا عملہ ادارت بھی تحسین کا مستحق ہے کہ اس نے جوہرِ قابل کی پذیرائی کا خصوصی اہتمام کیا ہے۔اس سلسلے میں اولیت کا سہرا صدائے پوٹھوہار سید آلِ عمران کو حاصل ہے جو دو سال پہلے کتب خانہ نور محمد نظامی پر جی کراں میں پروگرام پیش کر چکے ہیں۔
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔