کشمیر کو جنت نظیر بنانے میں اس کی برفیلی چوٹیوں، پرجوش چشموں، پرشور جھرنوں، پرشباب آبشاروں، پرسکون جھیلوں اور پرنشاط دریاؤں کا بہت دخل ہے۔ اس لیے پنڈت کلہن نے تاریخِ کشمیر پر اپنی کتاب کا نام دریاؤں کا راجہ (راج ترنگنی) رکھا۔ ان دریاؤں میں سے ایک دریائے جہلم ہے۔ جس کی مشہور گزرگاہوں میں ایک آزاد پتن ہے۔
دریائے جہلم مری کہوٹہ اور پونچھ کے متوازی پہاڑی سلسلوں کے درمیان رواں ہے جنہیں ایک پائیدار پل نے ملایا ہوا ہے۔ یہاں اس کشمیر کا نظارہ تو نہیں کیا جا سکتا جسے جنت کا ٹکڑا، دلہن کا گہنا، زمرد کا نگینہ اورنئے عہد کا گلوب کہا گیا ہے لیکن اس کے کچھ قابلِ دید مقامات راولاکوٹ، بن جوسہ، تولی پیر اور حاجی پیر کا دروازہ ضرور ہے۔
کہوٹہ اور راولاکوٹ کے درمیان واقع یہ پتن ''شیردریا'' کے ہنڈ اور نیلاب پتنوں جیسا نہیں ہے کہ اس پر کوئی ڈاکومنٹری بنتی، کسی فلم کا سین فلمایا جاتا، کوئی آرٹیکل لکھا جاتا یا کوئی رضا علی عابدی ہوا کے دوش پر اسے دنیا سے متعارف کراتا۔
نہ یہاں سے کوئی سکندر گزرا ہے کہ اس کی یادگار کے طور پر کوئی پتن مینار (رحیم یار خان) تعمیر کیا جاتا جو دو ہزار سے زائد سال بعد بھی قائم رہتا۔ سکندر کو یہاں آنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ پونچھ کا راجہ ابیسارس سکندر کے ٹیکسلا دربار میں اطاعت گزار راجہ امبھی کے پہلو میں جا بیٹھا تھا۔
سکندر تو کیا یہاں سے کسی سیاح، پنڈت، بھکشو، سنت اور پادری کے گزرنے کا کوئی نشان بھی نہیں ملا۔ البتہ ایک صوفی حضرت بری امام کی کہوٹہ اور دھیر کوٹ میں نشست گاہیں موجود ہیں۔
یہ پتن پنجاب اور پونچھ کا سنگم ہے۔ پونچھ کبھی ریاست تھا پھر جاگیر بنا اور اب ڈویژن ہے۔ آزاد پتن اس کے ضلع سدھنوتی میں ہے۔ اسی پونچھ میں لوہ کوٹ کا قلعہ تھا جس پر محمود غزنوی نے دو مرتبہ حملہ کیا لیکن راستہ مختلف تھا۔
یہاں سے کوئی حملہ آور ہوا تو وہ مہاراجہ گلاب سنگھ تھا۔ بیس کلومیٹر کے فاصلے پر منگ میں 1932 کے ان شہدا کی یادگار ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ راجہ گلاب سنگھ نے ان کی زندہ کھالیں اتروائیں۔
سن سنتالیس میں یہاں سے ریاست پر قبائلی یلغار ہوئی۔ ڈوگرہ حکومت نے پل کی کشتیاں توڑ کر کئی حملہ آوروں کی لاشوں سمیت دریا میں بہا دیں۔ لیکن ''لچھمن پتن'' آزاد ہو گیا۔ اس عمل میں کرنل خان محمد خان کا بہت دخل ہے۔ برٹش آرمی میں ان کی شجاعت کے صلے میں انگریز ریذیڈنٹ نے 1926 راولاکوٹ سے آزاد پتن تک روڈ اور پتن پر کشتیوں کا پل تعمیر کروایا۔ اس سے پہلے 1920 میں پتن پلندری روڈ کی تعمیر ہوئی۔
پنڈی گزیٹئیر دریا کے ساتھ ساتھ کوہالہ تا دھان گلی ''بالز روڈ'' کا ذکر بھی کرتا ہے۔ یہ پونی ٹریک اب بے نشان ہو چکا ہے۔ البتہ کوہالہ تا سالگراں پہاڑی سلسلے میں انگریز دور کے فارسٹ ریسٹ ہاوسز اب بھی زیرِ استعمال ہیں۔
سامنے پونچھ کے پہاڑی سلسلے میں ڈوگرہ دور کے کچھ چھوٹے قلعے موجود ہیں۔ آزاد پتن سے قریب ترین قلعہ آئن ہے۔ اگر دم ہو تو دریا پار موضع پانہ سے دو اڑھائی گھنٹے کی ہائیک ہے۔ یہ آبی چوکی تو شکستہ ہے لیکن اس کی کشادہ فصیل پر بیٹھ کر گہری خاموشیوں سے روح سرشار اور دریا کے لافانی نظارے سے آنکھیں ٹھنڈی کی جا سکتی ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد پتن سے کہوٹہ تک سڑک تعمیر کی گئی۔ لیکن تب سے سڑک لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں ہے۔ کٹی پھٹی پہاڑیاں منظر کے حسن کو گہنا رہی ہیں۔ یہ پہاڑیاں بے حیات تو نہیں لیکن اتنی با رونق بھی نہیں ہیں کہ انسان دیکھتا ہی رہ جائے۔
لینڈ سلائیڈنگ کے باعث یہاں اب تک کوئی پکنک سپاٹ نہیں بن سکا۔ کوئی ٹیولپ، ریورویو یا کنارا ہوٹل نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی فش شاپ ہے۔ البتہ ڈرائیور ہوٹل اور سڑک کنارے پکوڑے موجود ہیں۔
اگر آپ دریا کے دھانے جانا چاہتے ہیں تو پتن پل سے رسّوں کا معلق پل (گراری پل) کے درمیان کسی موزوں جگہ کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ لیکن تھوڑی احتیاط کی ضرورت ہے کہ پاٹ کم، دریا گہرا، بہاؤ شدید اور پانی ٹھنڈا ہے۔
کہتے ہیں کہ کبھی سری نگر کے پاس جہلم کے امرت پانیوں میں برف کی سلیں تیرتی پھرتی تھیں۔ اس لیے قیاس کیا جاتا ہے کہ ''جہلم'' جل (پانی) اور ہم (برف) کا مرکب ہے۔ اس کی ٹھنڈک کی صفت تو اب بھی برقرار ہے لیکن پانی گدلا چکا ہے۔
جہلم جب جھوم کے اٹھتا ہے تو ہر چیز اپنے لپیٹے میں لے لیتا ہے۔ 1992 میں آزاد پتن کا پل بھی ساتھ لے گیا۔ نیا پل زیادہ پائیدار اور پرکشش ہے۔ اسی قسم کے پل کوہالہ، ٹائیں ڈھلکوٹ، ہلاڑ اور دھان گلی میں بھی بنائے گئے۔
اگر آپ دریا کا فضائی نظارہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پنج پیر (نڑ) یا پلندری کی طرف جانا ہو گا۔ جہاں سے دریا آج بھی وشنو کے ترشول کی چوڑائی کے برابر دکھائی دیتا ہے۔ اگر کچھ اور اوپر سے دیکھیں تو یہ یقیناً شہ رگ کی مانند دکھائی دے گا۔
آزاد پتن سے مغرب کی سمت آسمان کی طرف دیکھیں تو پنج پیر کی چٹانیں سینے تانے کھڑی ہیں۔ پنج پیر کی سطح سمندر سے بلندی 6076 فٹ جب کہ آزاد پتن کی 1587 فٹ بلند ہے۔
پل کے دائیں طرف بل کھاتا ہوا راستہ پلندری کی طرف نکلتا ہے۔ 23 کلومیٹر کے فاصلے پر یہ پُرفضا ہل سٹیشن کبھی پونچھ سے پنجاب جانے والے اعلی ریاستی اہلکاروں کا بلند ترین پڑاو ہوا کرتا تھا۔ کشمیر تقسیم ہوا تو آزاد جموں کشمیر کا پہلا دارالحکومت یہیں جنجال ہلز میں قائم ہوا۔
کہتے ہیں کہ غریب پونچھی پنجاب جانے والی سکھ بیگمات کو راولاکوٹ سے پالکی میں اٹھاتے اور یہاں لاتے۔ آگے کا سفر اونٹوں اور ڈاچیوں پر ہوتا۔ کیوں کہ اس علاقے میں دریا آمد و رفت کے لیے موزوں نہیں ہے۔
کبھی یہ دریا لکڑی کی نقل و حمل کا بہترین ذریعہ تھا۔ کشمیر کی اعلی معیار کی لکڑی جہلم پتن پر اترا کرتی تھی۔ تب دریا کا نام وتستا یا بتستا تھا۔ جہلم پتن کے نام کو اتنی پذیرائی ملی کہ یہ نام پانی کے مخالف سفر کرتا ویری ناگ تک جا پہنچا۔
انگریز دور میں اس پتن پر فیری سروس بھی میسر تھی۔ فیریز کی کل تعداد تین تھی۔ مناسب فاصلوں پر فیری گھاٹ تھے۔ گزئیٹیر اس علاقے میں رام پتن کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔
آزاد پتن سے سات کلومیٹر اوپر آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور پتن شیرخان پل کی تعمیر کے منصوبے زیرِ غور ہیں۔ 35 کلومیٹر کے فاصلے پر نیچے کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔
کشمیر کے اس سنگلاخ کونے سے اب شاعری کے چشمے پھوٹنے لگے ہیں۔ پلندری، تراڑکھل، منگ اور پلائے سے شاعروں کی ایک کھیپ نکل آئی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر یومِ آزادی کے حوالے سے کسی مشاعرے کا اہتمام آزاد پتن میں کیا جائے۔
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔