ہفتہ، 25 دسمبر، 2021

ابن آدم

0 تبصرے

 


کہوٹہ کے جنوب میں تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر سروٹ ہے۔ یہ گاوں ایک بڑے مرتفع میدان پر پھیلا ہوا ہے۔سروٹ کی حدود کو لنگ اور کلھمن کا پانی چھوتا ہوا گزرتا ہے۔ '' سر '' سنسکرت میں پانی کو کہتے ہیں۔ جس طرح روسی ناموں کے آخر میںً ف لگا کر انہیں گورباچوف ، کریموف ، اسلاموف بنا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کہوٹہ میں جگہوں کے ناموں کے آخر میں ٹ کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔۔۔علیوٹ، کھڈیوٹ،دریوٹ، نتھوٹ اور سروٹ۔

کہوٹہ میں سروٹ جنجوعہ راجگان کے مراکز میں سے ایک ہے۔۔۔ جنجوعہ سپہ گری اور شاہ سواری میں تاریخی شہرت رکھتے ہیں ۔۔۔ راجہ مل کے سروٹی دولال اقبال خان کے گھر1934 میں وہ راج پوت پیدا ہوا جس نے اردو ادب کے جاسوسی راج محل میں تین دھائیاں قیام کیا۔

پون صدی پہلے سروٹ کے سنگریزوں پر ننگے پاوں پھرتے اور لنگ کے لہروں سے کھیلتے معصوم بنارس کے بارے میں کون جانتا تھا کہ کل اس کے تخیل کے دریا کی لہروں میں لاکھوں شناورتنکے کی طرح بہتے نظر آئیں گے۔

کہوٹہ کلر روڈ پر سہالی فیروزال سے دائیں سروٹ کی طرف جائیں تو ''گلہ'' کے مقام پر کاہو کے تین قدیم اور تناور درختوں کے سائے میں جاسوسی ادب کا قدآور ابنِ آدم مستقل آرام کر رہا ہے۔

یہ بات حیران کن ہے کہ مخصوص شخصی اور سماجی تفاخر کی حامل قوم کے ''راج پوت '' نے اپنا قلمی نام ابن آدم منتخب کیا اور محدود دائرے سے نکل کر آفاقی دائرے میں داخل ہو گیا۔

ابن آدم کے والد راجہ اقبال خان کاشتکار تھے۔۔۔ پھر پولیس میں ملازمت اختیار کر لی۔۔۔راجہ بنارس کی تعلیم پرائمری سکول پنجاڑچوک کہوٹہ اور ہائی سکول کہوٹہ میں ہوئی ۔ 1950 میں فوج میں بھرتی ہو گئے۔۔ ایف اے دوران سروس پرائیوٹ کیا۔1978 میں ریٹائرڈ ہو گئے۔ 1980 سے 1996 تک گورنمنٹ ہائی سکول کہوٹہ میں ہیڈ کلرک کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔

ان کی پہلی کہانی 1962 میں روزنامہ تعمیر میں ایم بی شاہیں کے نام سے چھپی۔ان کا ناول دوزخی 1965 میں چھپا۔ آورہ گرد دس سال '' نئے افق '' میں قسط وار چھپتا رہا ۔ آوارہ گرد کے علاوہ ، لاوراث، چرغ، عنوشہ ، ٹھگ، ماڈرن ٹھگ، سیاہ عقاب، ٹوٹی کمند یہاں، کفن بدوش،کوثری، جلتے دامن، جب بہار آئی، بے نقاب اور کفن کی بکل وغیرہ لکھے۔ اس کے علاوہ ماہانہ ڈائجسٹوں نیا رخ اور نئے افق کے لیے قسط وار کہانیاں لکھتے تھے۔

ڈائجسٹوں کی ڈیمانڈ کے مطابق ابن آدم کی اکثر کہانیاں افسانوی ہیں۔۔ ان میں ماورائی اور غیر مرئی عناصر بھی ہیں۔۔ اس کے علاوہ انہوں نے سماجی مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ لاوراث اس کی محض ایک مثال ہے۔یہ ایک یتیم بچے اور ایک بہادر عورت کی کہانی ہے جسے خودغرض معاشرہ دھتکار دیتا ہےلیکن وہ شکست تسلیم نہیں کرتی اور اپنی اولاد کے لیے سماج کے جبر کا مقابلہ کرتی ہے۔ ان کے کردار معاشرے کے عام افراد ہیں۔ ان کی کہانیوں کے ہیرو بھی افسانوی ہیروز کی طرح نہیں ہیں۔
ابن آدم کے کچھ ناول تحریک آزادی کشمیر کے متعلق ہیں۔۔ جن میں شعلہ حریت اور چرغ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ کشمیر سے کہوٹہ کا خصوصی تعلق ہے۔ ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔۔۔ کشمیرپر کہوٹہ کے جناب جاوید احمد کو "اے دنیا کے منصفو!" پر صدارتی ایوارڈ ملا۔

ابن آدم صحافی بھی تھے۔۔۔ پہلے اساس اخبار سے منسلک رہے۔۔ اوصاف میں کافی عرضہ شہباز کے عنوان سے کالم لکھتے رہے۔ آل پاکستان اخبارفروش یونین کے سیکرٹری جنرل ٹکا خان عباسی کے رفاقت میں آپ نے مسلمان اخبار نکالا جس کے آپ چیف ایڈیٹر تھے۔ گھر سے باہر آپ کا زیادہ تر وقت اخبار مارکیٹ اسلام آباد یا پریس کلب کہوٹہ میں صوفی ایوب صاحب کے ساتھ گزرتا تھا۔آپ 3 بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کے واحد کفیل تھے۔ اس لیے جگر کے کینسر کے باوجود لکھنا پڑتا۔ 8 مئی 1998 کو وفات پائی اور 7 مئی 1998 کو اوصاف میں آپ کا کالم چھا ہوا تھا۔

ابن آدم کا ایک روپ '' پہاپا بنارس '' کا بھی تھا۔ ریڈیو کے پروگرام راول رنگ اور گراں نی وسنی کےعلاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے بھی پوٹھوہاری ٹیلی پلے لکھے۔ آپ پوٹھوہاری کے اچھے صداکار بھی تھے اور حسب ضرورت ریڈیو پروگراموں میں کام کرتے تھے۔ ماسٹر نثارجیسے جید پوٹھوہاری شاعر ان سے مختلف علمی نکات پرمشورہ کرتے۔۔۔مشہور شعر خواں راجہ عابد کو متعارف بھی آپ نے کرایا۔ شعرخوانی کے لیے '' پہاپابنارس '' کی خدمات کے اعتراف میں بزم اھل سخن پوٹھوہار کی جانب سے آپ کو شیلڈ بھی پیش کی گئی۔

ان کے دوستوں میں اختر امام رضوی ، سلطان ظہور اختر ، ڈاکٹر محمد عارف قریشی ، ملک مبین (مرحوم) ، راجہ سکندر(مرحوم) ، ٹکا خان عباسی اور جناب برکت کیانی شامل تھے۔ ان کی وفات پر قدیر میونسپل لائبریری میں ایک تعزیتی اجلاس ہواتھا کچھ ماہ پہلے راجہ انور نے ان پر ایک کالم لکھا۔اس کے علاوہ ابن آدم پر کوئی کام نہیں ہوا۔ ان کے مختلف کرداروں کی تفصیل تو ایک طرف ان کی کتابوں کی کوئی فہرست بھی اب تک مرتب نہیں ہو سکی۔

کہوٹہ کے اے سی بلال ہاشم اہلِ علم کے قدردان ہیں۔ اگر کہوٹہ کی کسی سڑک کا نام ابن آدم کے نام پر رکھ دیا جائے تو اس مردہ سماج میں ایک زندہ مثال ہو گی۔۔اس کے علاوہ قدیر میونسپل لائبریری میں جاسوسی ادب کا سیکشن ان کے نام ہونا چاہیئے۔ ان کی تمام کتب اس میں رکھی جانی چاہیئیں۔ شہر کے کتب فروش اگر ان کی کتابیں اپنی دکانوں میں رکھیں تو یہ احسان شناسی کے زمرے میں آئے گا۔

معروف دانشور راجہ انور نے اپنے ایک اخباری کالم میں (3 اپریل 2014 ، بازگشت ، دنیا نیوز) ابن آدم کو پوٹھوہار کا ٹالسٹائی قرار دیا ہے۔ ٹالسٹائی اور ابن آدم میں کافی قدریں مشترک تھیں۔ دیہی پس منظر، فوجی خدمات ، کہانی کار، ناول نگار، زود نویسی اور تاریخ نویسی۔
ابن آدم ڈاکٹر محمد عارف قریشی کی رفاقت میں مختلف عنوانات کے تحت کہوٹہ کی تاریخ مرتب کر رہے تھے۔۔۔۔کہوٹہ چراغ سے بلب تک ، ٹیلی فون کی پہلی گھنٹی ، کہوٹہ میں پہلی موٹرکار وغیرہ وغیرہ۔ بدنصیبی کہ ابن آدم کی زندگی نے وفا نہیں کی اور یہ کام ادھورا رہ گیا ۔۔۔ اگر یہ ادھوری تاریخ پبلک ہو جائے تو یہ لکھاریوں کے لیے مہمیز کا کام کرے گی اور انہیں تکمیل پر ابھارے گی۔۔

ابن آدم کے طرزِ تحریر کی دو جھلکیاں دیکھئے :
٭۔۔۔''دولت ہی عزت ، وقار، شہرت ، شناخت اور طاقت ہے۔ دولت کسی گدھے کی اکاونٹ میں ہو تولوگ اسے بھی جھک جھک کر سلام کریں گے اور کسی انسان کی جیب خالی ہو تو اسے گدھے کی طرح ہانکنے لگتے ہیں۔''
عنوشہ

٭۔۔۔"منافقت اور بے وفائی کا زنگ کسی تعلق، کسی جذبے، کسی رشتے کو نہیں چھوڑتا۔۔ خود غرضی اور وقتی تسکین کی خواہشوں میں سچے جذبے یونہی گم ہو جاتے ہیں۔'' تعبیر۔عنوشہ

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔