ہفتہ، 25 دسمبر، 2021

کھٹڑ تاریخ کے آئینے میں

0 تبصرے

 


راولپنڈی سے اٹک جاتے ہوئے سنگ جانی کراس کریں تو مارگلہ کے چوٹی پر جواں مرگ برطانوی بریگیڈیئر جنرل جان نکلسن کی ایک بلند و بالا یادگارسے نگاہیں ٹکراتی ہیں اور دھیان جان نکلسن سے ہوتا ہوا واہ کے کھٹڑ سرداروں کی طرف چلا جاتا ہے۔

واہ سنگ جانی سے باغ نیلاب کے درمیان پھیلی کھاٹری (ارضِ کھٹڑاں) کا مرکز ہے۔ کبھی اس کا نام جلال خان کھٹڑ کے نام پر'' جلال سر'' تھا۔ 1607 میں نورالدین جہانگیر نے یہاں سرسبز پہاڑیوں کے دامن میں شفاف چشموں کا جادوئی حسن دیکھ کر'' واہ '' کہا اور یہی اس کا نام ٹھہرا۔

سکھوں اور انگریزوں کی پہلی جنگ میں چترسنگھ ہری پور سے حسن ابدال پہنچ گیا۔ نکلسن اٹک سے موضع واہ آیا اور سردار کرم خان کھٹڑ کے مزارعین اور متوسلین پرمشتمل فوج تیار کی۔پنڈی سے خالصہ فوج سکھوں کی مدد کے لیےنکلی۔ نکلسن رسد کاٹنے مارگلہ پہنچا اور سکھوں کے گھیرے میں آ گیا۔ سردار کرم خان کی بروقت مدد سے یہ جنونی گورا بچ گیا اور اگلے بارہ سال تک کالوں کی گردنیں مارتا رہا۔ کچھ دن بعد سردار کرم خان کو ان کے بھائی فتح خان نے قتل کر دیا۔

جنگِ آزادی 1857 میں نکلسن دہلی میں شدید زخمی ہوا۔ سردار کرم خان کے بیٹے کی 9 دن کی حیات بخش تیمارداری کے باوجود بے جان ہو گیا۔ لیکن تیماردار کو حیاتِ تازہ مل گئی۔ محمد حیات خان نواب بن گئے۔ بے شمارجاگیراور واہ گارڈنز ان کے حوالے ہوئے۔

محمد حیات خان نے ماہر انساب ملا سرور سے خاندانی شجرہ مرتب کروایا جس کے مطابق ان کے جد راجہ شیو دیال چوہان 750 عیسوی میں براستہ کشمیر باغ نیلاب آئے۔ چودھویں پشت میں راجہ کھٹڑ نے اسلام قبول کر لیا اور وہ کھٹڑ خان بن گئے۔نواب محمد حیات خان کے بیٹے سردار سکندر حیات ـــــــ نواب، پنجاب کے گورنر اور وزیراعلی بنے۔ 1942 میں وفات پائی تو علامہ اقبال کے مقابل دفن ہوئے۔

پوتے سردار شوکت حیات خان کی شوکت بھی قابل دید رہی ـــــــ اس دیدہ ور نے ''دی نیشن ہو لاسٹ ہز سول'' لکھی۔ پہلی مرتبہ کھٹڑ تاریخ پر ایک کھٹڑ نے نظر ڈالی اور انہیں '' الکھٹڑ'' جبرالٹر کو سر کرتا، راڈرک کو روندتا اور سپین میں فتح کے جھنڈے گاڑتا دکھائی دیا۔ سقوطِ غرناطہ کے بعد کھٹڑ یورپ، ترکی، ایران اور افغانستان چھوڑتے خیبر پختون خوا سے گزرتے، دریائے سندھ پار کرتے باغ نیلاب میں ڈیرے ڈالتے نظر آتے ہیں۔

عام طور پر کھٹڑ اپنا شجرہ نسب قطب شاہ کے بیٹے چوہان سے جوڑتے ہیں جو محمود غزنوی کا سپہ سالار تھا۔ اس نے دریائے سندھ کے دھانے قصبہ نیلاب پر قبضہ کیا۔ لیکن چوہان کی سولویں پشت میں کھٹڑ خان کے دور میں اپنا قبضہ برقرار نہ رکھ سکے اور افغانستان نکل گئے۔ 1175 میں کھٹڑ خان نے سلطان غوری کے ملازمت اختیار کر لی اور غوری کے حملہ ہندوستان کے وقت نیلاب پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔

میں کہوٹہ میں کھٹڑوں کے محلے میں رہتا ہوں۔ جس کالج میں پڑھتا ہوں وہ علاقہ کھٹڑوں کی زد میں ہے۔ ان کی محبتوں کا اسیر بھی ہوں۔ کافی عرصے سے کوشش میں تھا کہ کھٹڑ تاریخ پر کچھ لکھا جائے۔ اس کے لیے کیپٹن (ر) محمد بنارس کھٹڑ صاحب کی کتابوں سمیت بے شمار مطالعہ کیا لیکن قلم اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے جتنے معتبر مورخین کوپڑھا انہوں نے کھٹڑ تاریخ کے حوالے سے اپنے عجز کا اظہار کیا ہے۔ عربی، خراسانی، ہندی ــــــــــ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔

کھٹڑوں میں دانشور مورخوں کی کمی نہیں رہی۔ اس دور میں بھی طارق علی موجود ہیں۔ لیکن اس لفٹسٹ کو اس موضوع سے شاید دلچسپی نہیں۔ ایسے میں ایک رائٹسٹ قمر عبداللہ اس نیلاب میں اترے ہیں۔

2
پوٹھوہار حسن کا وہ ''ٹوٹا'' ہے جسے مری کہوٹہ اور کالا چٹا کوہستانوں کی شاداب بانہوں نے گھیرا ہوا ہے۔ اس کے دامن میں جہلم اور سندھ کے امرت دھارے رواں ہیں۔اس کے سینے پر مارگلہ کی لٹ پڑی ہوئی ہے۔ جس کی ایک طرف تہذیب کی کونپلیں چٹکی ہوئی ہیں اور دوسری طرف تمدن کے گلاب کھلے ہوئے ہیں۔ کہوٹہ اور اٹک اس کی بالیاں ہیں جن میں باغ نیلاب کے سفید و سرمئی نگ جھلملا رہے ہیں۔

ویسے تو شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں باغ نیلاب کے ان نگینوں کی جگمگاہٹ نہ ہو لیکن پنڈی، اٹک اور چکوال میں جگہ جگہ ان کی کہکشائیں ہیں۔ یہ نگینے کسی تاج تک نہیں پہنچے کہ حکمران بنتے لیکن یہ اس جنت کی چوکھٹ کے رضوان ضرور تھے۔ ان کا تخت باغ نیلاب کا قلعہ تھا۔ ہنڈ پتن سے سوجندھ باٹا تک ان کی مرضی کے بغیر آمد و رفت مشکل تھی۔ یہ من موجی کے قائل تھے۔ کوئی بھی ان سے خوش نہیں تھا۔ سو رضوانی چھن گئی اور تخت تختہ بن گیا۔ تین سو سال کے بعد باغ نیلاب کا سفید نگینہ متحدہ پنجاب کے تاج میں چمکا اور آج ایک سرمئی نگینہ ہریانہ کے تاج میں جھلملا رہا ہے۔

اٹک شہر سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر کالا چٹا پہاڑ کے دامن، سندھ ساگر کے دھانے، پنجاب پختون خواہ کے سنگھم اور غازی بروٹھا ڈیم کے قریب باغ نیلاب کا تاریخ قصبہ ہے۔ دریائے سندھ ـــــــــ بروٹھا، باغ نیلاب، گھوڑا مار، گھوڑا ترپ اور سوجندہ بھاٹا سے گزرتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔ جب کہ سڑک صرف بھاٹا تک جاتی ہے۔ ساحل پر لاکھوں کی تعداد میں خوبصورت پتھر بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کی رنگت بلیک اینڈ وائٹ ہے۔ رنگوں کی یہی تخصیص کھٹڑوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ پتھردلکش تھے لیکن ــــــــ میں گوہرمراد کی تلاش تھی۔

کھٹڑوں کے اس بیان نے کہ وہ ابتدائی مسلم حملہ آوروں کے ساتھ باغ نیلاب آئے تھےــــــ ہمیں فارسی، یونانی، باختری، کوشانی، ساسانی اور وحشی سفید ہنوں کی کافر تاریخ کے مطالعے سے بچا لیا اور ہم غزنوی،غوری، تیموری اورمغل مجاہدوں کی تاریخ کی تلاوت کرنے لگے۔ ابوریحان البیرونی کی کتاب الہند کا صفحہ صفحہ چوما کہ شاید کہیں اس نے اپنے خراسانی ''گرائیوں'' کا ذکرکیا ہو۔اس امید پر فرشتہ صفت ابوالقاسم کا تاریخی صحیفہ دیکھا کہ شاید گکھڑوں کے ساتھ ساتھ کھٹڑوں کی توصیف بھی بیان کی ہو۔

چنگیزخان اپنی زندگی کی واحد شکست کا بدلہ لینے کے لیے جلال الدین خوارزم کا تعاقب کرتے باغ نیلاب پہنچا اور اسے گھیرے میں لے لیا۔ جلال الدین نے ایڑ لگائی اور گھوڑے سمیت دریا سے ہوتا پارپہنچ گیا۔ اس کی یادگار کے طور پر اب بھی اس جگہ کا نام گھوڑا ترپ ہے۔ یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ اسے پناہ دینے والوں میں کھٹڑ شامل ہیں۔

مغلوں سے پہلے کے پوٹھوہار کا منظر نامہ اتنا واضح نہیں۔ ان کے روزنامچے تاریخ کے تاریک دشت میں روشن شمعیں ہیں۔ تزکِ جہانگیری کے مطابق بہار 1607 میں جہانگیرنے کابل جاتے ہوئے نیلاب کے کنارے قیام کیا۔ یہاں شوریدہ سر دلازکوں اور ''کھتروں'' کے سات آٹھ ہزار مکانات تھے۔ اس نے حکم دیا کہ اس کی کابل واپسی سے پہلے انہیں لاہور کی طرف چلتا کریں اور کھٹڑ سرداروں کو گرفتار کر لیں۔

جانے جہانگیرسے کھٹڑوں نے کیا کھڑپینچی کی کہ انہیں باغ نیلاب سے ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔ ہم نے اپنے پندرہ سالہ تعلق میں انہیں نفیس پایا۔ اس حوالے سے ہم کھٹر شاعرڈاکٹر سعداللہ کلیم سے متفق ہیں :
نفرت کی زد میں ہوں تو بڑے سخت جان ہیں
ہم اہلِ دل ہیں ہم کو محبت کی مار دے

یوں کھٹڑ نیلاب بدر ہوئے اور جگہ جگہ پھیل گئے۔ خالصہ عہد میں کچھ کھٹڑ گھرانے عثمان کھٹڑ ٹیکسلا سے اٹھے اور لنگ کنارے کہوٹہ آباد ہوگئے۔ دریوٹ وارث، میرا، کالج کالونی ـــــــــ چاہات، ڈھونگی اوران دو کا درمیانی حصہ کھٹڑوں سے پر ہے۔ نیلاب کے حکمران محلہ چاہات کے نمبرداربنے۔ حالیہ بلدیاتی انتخاب میں محلہ چاہات سے ایک کانٹے دار مقابلے کے بعد قاضی اخلاق احمد کھٹڑ کونسلر منتخب ہوئے ہیں۔

خالصہ عہد میں ہی بھاٹا کے راجہ منگا خان کے بیٹے اور پوتی کے رشتے کہوٹہ کی کھٹڑ برادری میں ہوئے اور اس طرح بھاٹا (گجرخان) میں کھٹڑوں کی ابتدا ہوئی۔ ان کے ایک جوان قمر عبداللہ نے بھاٹا کی تاریخ لکھی ہے اور اس کی تمہید کھٹڑ تاریخ سے اٹھائی ہے۔

تحقیق کی جس جہان میں داخلے پر فرنگیوں کے پر جلتے تھے قمر عبداللہ اس میں دیوانہ وار اڑانیں بھر رہے ہیں۔ جن پتھروں کو محققین نے چوم کے چھوڑ دیا تھا وہ مصنف کے قدم چومتے دکھائی دیتے ہیں۔ کھٹڑوں کا قصہ یوں چھیڑا ہے کہ سرشار قاری نیلاب کی لہروں کے ساتھ تنکے کی طرح بہتا چلا جاتا ہے۔

لفظ کھٹڑ میں انجانا کچھاو ہے۔ سنتے ہی منہ میں پانی آ جاتا ہے۔ دھیان کھٹاس سے ہوتا ہوا منجی کی طرف چلا جاتا ہے۔ قمر عبداللہ نے یہ معمہ بھی ایک روایت سے حل کر دیا ہے : '' گوہر علی نے دوبارہ باغ نیلاب پر قبضہ کیا تو ہندو راجاوں نے کہا کہ گوہرعلی نے راجدھانی کھٹ لی ہے اور یوں گوہر علی کھٹڑ خان کے نام سے معروف ہو گیا۔''

کچھ دیدہ ور لفظ کھٹڑ کا مادہ عربی لفظ ''خطر'' بتاتے ہیں کہ یہ انتہائی خطرناک ہیں۔ انگریزہندوستان کی جن قوموں کو سپاہیانہ خصوصیات (مارشل ریس) کا حامل سمجھتا تھا ان میں کھٹڑ شامل تھےــــــ کچھ لوگ لفظ کھٹڑ کی کھتری اور خٹک سے قربت کی تلاش میں ہیں۔ ان کے لیے کرنل کراکوفٹ کا یہ تجزیہ کافی ہے:
“If, on the one hand, the Khattar be fierce and bloodthirsty, the Khatri of Jadal is courageous and persevering, and although living from day to day with a knief at his throat is as defiant as if he were backed by a force far out-weighing that of the Khattars and Khattacks and Afridis together.” (Rawalpindi Ghazatteer, 1893-94: 126)
'' اے ہسٹری فرام اورنگ زیب ٹو ماونٹ بیٹن'' میں گاندھی جی نے انہیں جاٹ لکھا ہے جو پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش میں موجود ہیں۔ یہاں ہریانہ کے موجودہ وزیراعلی منوہر لعل کھٹڑ اور فنکار راجیش کھٹڑ کا حوالہ دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ عبداللہ قمر نے یہ جھگڑا بھی ایک روایت کے حوالے سے کہیے چکا دیا ہے۔''کھٹڑخان کی ساتویں پشت باغ نیلاب پر حکومت کر رہی تھی کہ ایک ہندو جوگی کے سحر سے کھٹڑوں کا ایمان لرزنے لگا۔ ایک ولی نے نصرت الٰہی سے یہ سحراتارا۔''

ہم نے اس کامل کا سنا تو حاضری کے لیے باغ نیلاب روانہ ہو گئے۔ نوری بابا کا مزار ایک پہاڑی چوٹی پر ہے۔ پہنچنے کے لیے 170 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ گوہرِ مراد تک رسائی کے لیے یہ معمولی مسافت تھی۔ سو ہم اسی ولی کے مزار پر جا بیٹھے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ یہاں قبر نہیں ہے۔ یہ ویسے ہی بنی ہوئی ہے۔ یہاں سلام کرنے کے بعد آپ بلوٹ شریف جائیں۔ کاش! انہیں بتا سکتا کہ اصل چیز ارادت ہے قبر یا صاحبِ قبر نہیں۔


3

میں نوری سلطان عبدالوہاب کی بلند و بالا آستانے سے علاقے کا روح پرور نظارہ کر رہا تھا۔تاریخ، تہذیب، خوراک، روزگار، سیاست۔۔۔ یوں کہیے کہ پاکستان میں حیات کا سب سے بڑا دھارا میرے سامنے رواں دواں تھا۔اس کے نام بھی اس کی عظمت کی دلیل ہیں۔۔۔انڈس ،سندھیا، سندھو ، سندھ، اباسین ،نیلاب اورشیر دریاـ۔۔۔! دور اس کی ایک کچھار ''غازی بروٹھا'' دکھائی دے رہی ہے ۔ ڈیم اور نیلاب کے درمیان ''ہرو'' کا پانی شیر دھاروں میں شامل ہوتا ہے ۔یہی وہ مقام ہے جہاں دھاڑتا دریا دم سادھ لیتا ہے۔نہ کوئی موج نہ آواز۔اٹک خورد اور مکھڈ کے درمیان بحری سفر کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے کیے گئے حالیہ دریائی سروے کے مطابق یہاں دریا بہت گہرا ہے۔یہی گہرائی خاموشی کا راز ہے ۔ اسی خاموشی سے باغ نیلاب کی شہرت عبارت ہے کیوں کہ گھاٹ کے لیے یہ بہترین جگہ تھی جہاں سے صدیوں دریا عبور کیا جاتا رہا۔

دریا کے پار دور تک خیبر پختون خوا کا سرسبز میدان ہے۔ اوہنڈ پتن (صوابی) اور مکھڈ (اٹک) کا یہ درمیانی ٹکڑا تاریخی اور تہذیبی اہمیت کا حامل ہے۔ پنجاب و پختون خوا کا سنگھم ، گندھارا تہذیب کا مرکز، دنیا کے پہلے زبان دان پانینی کی جائے پیدائش، سکندر سمیت سینکڑوں کی گزرگاہ، محمود و انند اور خوارزم و چنگیز کا میدان جنگ ـــــ اور بے شمار تاریخ پیکاروں کا مرکز۔ اگر ذوقِ سماعت ہو تو گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور تلواروں کی جھنکار کی بے صوت صدائیں صاف سنائی دیتی ہیں ۔شہرت، ناموری، کشور کشائی اور اندھی لوٹ مار کے لیے بار بار اس نیلگوں امرت کو گدلایا گیا۔ گاجروں اور مولیوں کو بھی اس طرح نہیں کاٹا جاتا جس نفرت اور وحشت سے نیلاب کے ان کناروں پر انسان کٹا ہے۔ مسلسل وحشتوں کا شکار باغ نیلاب کے باسیوں پر صدیوں کیا قیامتیں ٹوٹتی رہیں ۔۔۔؟ کسی مورخ کو اس سے کوئی غرض نہیں رہی۔

اب تک باغ نیلاب پر کوئی ڈاکومینٹری نہیں بنی۔ کسی فلم کا کوئی سین نہیں فلمایا گیا۔دنیا کے اس حسین '' ٹوٹے'' پوٹھوہار کا صدیوں سے بند ''بوہا'' کھلنے کے لیے سید آل عمران کی ''سم سم'' کے انتظار میں ہے۔ ان کی طلسماتی آواز کی لطیف قوسیں کروڑوں سماعتوں کو چھوتی گلوب کے آخری کونے کو جا چومتی ہیں۔

باغ نیلاب پرسب سے پہلے رضا علی عابدی کی نظر پڑی اور'' شیر دریا'' میں اس کا ذکر ہوا۔ دانشور سفرنامہ نگار سلمان رشید یہاں سے گزر کرسوجندہ باٹا اور کالا چٹا پہاڑ میں پراسرار قلعے کے کھنڈرات تک پہنچ گئے لیکن باغ نیلاب نہیں رکے۔مولانا محمد اسماعیل ریحان جلال الدین خوارزم کے نقشِ پا کی تلاش میں کراچی سے یہاں چلے آئے۔ قمر عبداللہ نے '' بھاٹا تاریخ کے آئینے میں'' باغ نیلاب کا سرسری تذکرہ کیا ہے اورایک مقامی محقق عمران خان کھٹڑ اس پر تفصیلی کتاب شائع کرنے والے ہیں۔

بات قمر عبداللہ کی اسی کتاب سے شروع ہوئی تھی جو وہ اپنے مادرِِ علمی گورنمنٹ ہائی سکول بھاٹا کی صد سالہ یومِ تاسیس کے موقع پرشائع کروا رہے ہیں۔ اپنے تعلیمی ادارے کے ساتھ ان کے مخلصانہ تعلق کا یہ باوقاراظہارہے۔ بھاٹہ کی تاریخ، اقوام، شخصیات اور مقامات وغیرہ کا مفصل احوال انتہائی سادہ اور دلنشین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ لفظ لفظ سے مٹی کی محبت کی خوشبو آ رہی ہے۔۔۔بھاٹا اور اہل بھاٹاکے مقدر پر رشک آ رہا ہے کہ اس گاوں کی پانچ چھ سو سالہ تاریخ اور شخصیات پر اتنا تحقیقی کام ہوا ہے۔ ہمارے ہاں گاوں گوٹھ اور قصبے تو درکنار بے شمار چھوٹے بڑے شہر ایسے ہیں جنہیں قمر تو کیا، اب تک کوئی عبداللہ نہیں ملا۔

قمر عبداللہ افسانہ نگار، ناول نگار، صوفی اور شاعر ہیں۔ ہر شعبے کا حق کتاب کی صورت میں ادا کر چکے ہیں۔ عربی شاہ قلندر پر ان کی کتاب ''جلوہ عشق'' اہلِ تصوف سے داد وصول کر چکی ہے۔ اس لیے " بھاٹہ تاریخ کے آئینے میں'' ان کی صوفیانہ خوش خیالی کی جھلکیاں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ تاریخ کے پرخار دشت میں قدم رکھاہے ۔ اس میدان کی وسعتیں دیکھتے ہوئے اس کتاب میں گنجائشیں یقیناً ہوں گی۔ لیکن انہوں نے بھاٹا کے حوالے سے مستقبل کے مورخ اور محقق کے لیے بنیادی کام کر دیا ہے۔

ہمیں امید ہے کہ اب وہ کھٹڑ تاریخ پر باقاعدہ تحقیق کریں گے اور اس کی الجھی گھتیاں سلجھانے کی کوشش کریں گے ۔مثلاً کھٹڑ خان جس کی شکست کے بعد کھٹڑ سحر سامری کے زیرِ اثر ہندو ہو گئے اورحضرت نوری سلطان جنہوں نے اس سحر کو توڑاکے عہد میں صدیوں کا فرق ہے۔

میں نوری سلطان کے تکیے سے اترا اورقلعے کے کھنڈرات کی طرف چل پڑا۔ راستے میں ہزاروں قبروں نے حیرت زدہ کر دیا۔۔! وحشت ۔۔۔؟ سیلاب ۔۔۔؟ آسمانی بجلی۔۔۔؟ قحط ۔۔۔ ؟ طاعون۔۔۔؟ یا پھر سحرِ سامری ۔۔۔؟ میرے گائیڈ سفیر نے بتایا کہ نیلاب تا سوجندہ بھاٹا انسانوں کا قبرستان ہے۔ کہتے ہیں کہ اس علاقے میں طاعون پھیل گیا تھا۔

ایک گھنٹے کے پیدل سفر کے بعد قلعہ کے آثار واضح طور پر دکھائی دیے۔ کھنڈر بتا رہے ہیں کہ قلعہ دریا سے کافی اوپر دائرے کی صورت میں تھا اور اس کے اطراف میں پانی کا حصار تھا۔ اس کا رقبہ آئن، برنڈ اور بارل کی قلعہ نما چوکیوں سے بڑا ہے۔ حملہ آوروں کی عین گزرگاہ میں یہ کس نے کھڑا کیا؟کہیں ہندو شاہیہ قلعوں نندنہ، لوہ کوٹ اور پھروالہ کا تسلسل تو نہیں ؟ لیکن تاریخ خاموش ہے۔ تاریخ خوارزم شاہی میں گھاٹ کو ذکر تو ہے لیکن قلعہ کا نہیں۔ بابر اپنی یاداشتوں میں 18 فروری 1519 کے واقعات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ''۔ ۔ ۔ پندرہ میل نیچے نیلاب کے باشندے زرہ بکتر سے مزین ایک تازہ دم گھوڑے اورتین سو شاہ رخیوں کا تحفہ لیے میرا انتظار کر رہے تھے۔'' شیر شاہ سوری کی جرنیلی سڑک سنار،چٹگانگ تا نیلاب گھاٹ تک تھی۔ اکبراعظم نے 1583 میں اٹک قلعہ بنوایا اور جرنیلی سڑک کا رخ باغ نیلاب کے بجائے خیرآباد ہو گیا ــــــ۔

سفیر نے بتایا کہ دریا چڑھا ہوا ہے ورنہ دریا ئی چٹانوں پر ہندو دیوی دیوتاوں کی تصاویر واضح طور پردکھائی دیتی ہیں۔ تقسیم سے پہلے تک باغ نیلاب میں کھٹڑ موجود تھے۔ لیکن اب پاکستان میں کسی ہندو کھٹڑ اور انڈیا میں کسی مسلمان کھٹڑ کا ملنا مشکل ہے۔انڈین کھتری و جاٹ کا اور پاکستانی کھٹڑ وں کی اکثریت علوی سادات کا دعوی کرتی ہے۔ مورخ بھی کھٹڑوں کے حوالے سے متضاد رائے رکھتے ہیں۔ سٹیڈ مین ـــ اعوان، گریفن ــــ خراسانی، کرے کرافٹ ــــ ہندی اورجنرل کننگم انہیں یو چی (گجر) قرار دیتا ہے جب کہ'' پنجاب کاسٹس'' کے مصنف ڈینزل ابٹسن ان کے بارے میں اپنی رائے نہیں دے سکے ۔ ''پنجابی مسلمان" کے مصنف جے ایم وائکلی کے مطابق جن مسلمانوں کا خود کو مغل کہنا روایت ہےان میں کھٹڑ شامل ہیں۔معروف فرنچ اسکالرکرسٹوفر جیفری لوٹ نے ''اے ہسٹری آف پاکستان اینڈ اٹس اوریجن'' میں تاریخ دانوں کے حوالے سے کھٹڑوں کو کشان کہا ہے۔ مہاراجہ کنشک کھٹ رائے کی نسل میں سے تھے۔ کہیں '' کھٹڑ'' کھٹ رائے سے ماخوذ تو نہیں ؟گریفن کے نظریے کی تحقیق کے لیے خراسان کا رختِ سفر باندھا تو وادی کرم میں'' طور ''قبیلے نے گھیراو کر لیا کہ واپس جاو ،ہم راجپو ت ہیں ، خراسانی نہیں ۔

کھٹڑ خود بھی اس حوالے سے متفق نہیں ہیں۔ محمد حیات ــــ چوہان راجپوت، شوکت حیات ــــ بربر، اورکھٹڑ مورخوں کا جمہور خود کو عربی کہتا ہے۔ان میں کچھ حضرت حضرت عباس علمدارؒ کا علم اٹھائے ہیں اور کچھ حضرت محمد بن حنفیہ ؒ کا۔ اتفاق ہے تو سالار قطب شاہ پر ہے۔۔۔ جو تاریخ کے نیلاب کا ایک دھنک رنگ دھارا ہے۔۔۔ ہر رنگ کے روپہلی شیڈز ہیں۔ ایک جھلک مرات مسعودی کے مصنف عبدالرحمن چشتی کی زبانی ملاحظہ ہو: ''۔۔۔دل میں نسب کے بارے میں وہم ہوا۔۔۔ خواب میں دیکھا کہ سلطان الشہداء (قطب شاہ) سفید گھوڑے پرتشریف لارہے ہیں قریب آ کر فرمایا ــــــ آو! آج آپ کو اجداد کی قبروں کی زیارت کرواتے ہیں تاکہ نسب کا شبہ دورہوجائے۔۔۔ اور پھر سالار ساہو تا محمد حنفیہ ــــــ ایک ایک کی زیارت کراونے کے بعد زیارت اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالٰی وجہہ کے لیے روانہ ہوئے۔۔۔ میں نے دور سے دیکھا کہ اسداللہ الغالب صلواة اللہ علیہ فاختائی لباس میں درِ کعبہ پر تکیہ لگائے تشریف فرما ہیں ــــــــ ۔''
میں نے کتابی سرہانے رکھی اور سو گیا۔ خواب میں دیکھا کہ قیامت برپا ہے۔ میرے دائیں شجروں کا سفید اوربائیں سرمئی نیلاب ہے۔۔۔ تشکیک کے جرم میں مجھے دوسرے میں اچھال دیا گیا۔

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔