بانسری کی سریلی آواز نے جنگل میں جادو جگایا ہوا ہے ـــــ ڈھول کی تھاپ پر برہنہ پا ڈالیں رقص کر رہی ہیں ـــــ کہیں کتوں ککڑوں اور بٹیروں کا ٹکراو ہو رہا ہے ـــــ کہیں تیتروں کی آوازیں لگ رہی ہیں ـــــ شام کو کھلی جگہوں پر کوڈی کوڈی کی تکرار سنائی دے رہی ہے ـــــ جگہ جگہ والی بال کے تماش بینوں کا شور اٹھ رہا ہے ـــــ رات دیر گئے تک گھڑے ستار کی لے پر پوٹھوہاری شعر خوانی کی محفلیں برپا ہیں ۔۔۔۔!
یہ اکیسویں صدی کے شروع کے کہوٹہ کا منظر نامہ ہے۔ بموں اور میزائلوں کے کامیاب تجربوں سے کہوٹہ کو عالمگیر شہرت مل چکی تھی۔ لیکن کہوٹہ کے کلچر میں کسی نئے عنصر کا اضافہ نہیں ہوا تھا۔ اسی دوران شہر ایک مسیحا بغل میں سخن کا صیحفہ دبائے شہر میں داخل ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل جاتا ہے۔
علمی اور فکری تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے۔ شعور کی بیداری عبادت ٹھہرتی ہے۔ لفظ کی حرمت پر بات ہونے لگتی ہے۔ انجیلِ آگہی کے ورق کھلتے ہیں۔ سنتِ سقراط کا احیاء ہوتا ہے۔ حقیقت اشیاء کے ادراک کی دعائیں ہونے لگتی ہیں۔ شہر کے ہوٹلوں میں وجود اور جوہر، محنت و سرمایہ اور زمان و مکاں پر مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ ادبی نشستیں معمول بن جاتی ہیں۔ ڈانس آف ڈارکنس، بجھی ہوئی شام، پانی، کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں، بے ستوں، نعت نگینہ کی تقریب رونمائی ہوتی ہے ــــــ مقامی شعرا کا انتخاب سنگ زادوں کے خواب کے نام سے چھپتا ہے ــــــ بہزاد جاذب، گلنار آفریں، رومانہ رومی، انور مسعود کے ساتھ شامیں منائی جاتی ہیں ــــــ ایک سے بڑھ کر ایک مشاعرہ ہوتا ہے۔ ملک بھر سے شعرا کہوٹہ تشریف لاتے ہیں۔ یہاں تک کہ احمد فراز کی آخری سخن سرائی کہوٹہ کے حصے میں آتی ہے۔ اب اس گلزار کے تازہ گلابوں حسن ظہیر راجہ اور قمر عباس سے چمن چمن مہکا ہوا ہے اور نئے غنچے خوشبو کے سفر پر نکلنے والے ہیں۔
پچھلی صدی کی پچاس کی دھائی میں کہوٹہ کے دورافتادہ گاوں سوڑ کی سنگلاخ چٹانوں میں ایک چشمہ پھوٹا جس کی جلترنگ اردو دانوں کی سماعتوں میں ہمیشہ شیرینیاں گھولتی رہے گی۔
نقوشِ اول بتا رہے تھے یہ عام لڑکوں سے منفرد ہے۔ ایک دن ہیڈ ماسٹر صاحب کلاس میں تشریف آئے اورغالب کے اس شعر کی تشریح پوچھی ؎
گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلی نہ طور پر۔۔۔ دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر
کلاس میں صرف ایک دست فراز تھا ـــــ جاوید احمد ! جب لب کشا ہوا تو سربراہِ ادارہ کے ساتھ ساتھ استادِ محترم بھی حیرت زدہ رہ گئے۔
سکول گاوں سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر لہتراڑ میں تھا۔ راستے میں 5 ہزار فٹ بلند پہاڑی چوٹی پر تکان دور کرنے کے لیے پڑاو ہوتا۔ ایک مرتبہ پہاڑی ڈھلوانوں پر تہہ بہ تہہ سرسبز کھیتوں میں سرخ و کبود رنگوں میں ملبوس مرد وزن دیکھ کربے اختیار کہا ؎
یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کا چلنا یہ بادلوں کا افق سے اٹھنا
یہ سبز کھیتوں میں سرخ آنچل نکھار فطرت کے بانکپن کا
ہونہار بروا کے چکنے پات سخن کے کسی شجرِسایہ دار کی نشاندہی کرتے تھے۔ میٹرک کے بعد جونیئر ورنیکلر ٹیچر کا کورس کرنے نارمل سکول لالہ موسیٰ چلے گئے۔ جہاں 16 سال کی عمر میں جناب احسان دانش کی صدارت میں پہلا مشاعرہ پڑھا ؎
کلی کو پھر چٹک جانا پڑا ہے ۔۔ دلوں کو پھر دھڑک جانا پڑا ہے
یہ آنچل کو نہ جانے کس لیے اب ۔۔ حسیں رخ سے ڈھلک جانا پڑا ہے
جے وی کے بعد مدرسی کے بجائے سپہ گری کا پیشہ اختیار کر لیا۔ فوجی ڈسپلن شاعرانہ طبیعت پر بار تھا۔ اس لیے عسکری ماحول سے نکلے اور کراچی ریڈیو چلے گئے۔ یہ ہجرت انہیں راس آ گئی۔ ایک خضرِ راہ '' قمر جمیل '' مل گئے جنہوں نے جاوید احمد کو عمر جاوید کا جام پلا دیا۔
کراچی میں رسمی اور غیر رسمی تعلیم کی تکمیل کی تمام حسرتیں تمام ہو گئیں۔ اردو کالج میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ابوالخیر کشفی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے کسب فیض کیا۔ جامعہ کراچی کی علمی رنگینیوں نشاط افروز تھیں۔ ایک دفعہ ایک طرح مصرع : '' کہہ رہا ہے موجِ دریا سے کنارہ شام کا '' پر طبع آزمائی کی دعوت دی گئی ـــــ بہت مقابل تھے پر جاوید جاوداں ٹھہرے ؎
لے گئے وہ ساتھ اپنے حسن سارا شام کا ۔۔ ہجر کی تصویر ہے اب ہر نظارہ شام کا
لوٹ کر وہ شام سے پہلے ہی گھر آنے لگے ۔۔ ان سے شاید چھن گیا کوئی سہارا شام کا
قمر جمیل صاحب کے ساتھ گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں ہیڈگر، سارتر، کافکا وغیرہ کو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ کراچی ریڈیو میں سارہ شگفتہ، فاطمہ حسن، حمایت علی شاعر، منظر ایوبی اور امید فاضلی سے ملاقاتیں رہیں۔ انچوئلی میں سلیم احمد کے ساتھ قد آور شخصیات کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ خرد افروزوں کے ساتھ ساتھ احمد جاوید کی عشق افروز گفتگو نے جاوید احمد کو ہمہ جہت بنا دیا۔
سلیم کوثر کی ہمسائیگی نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ سحرخیزی سے شب خیزی تک روئے سخن سنوارتے۔ جوش صاحب کو تھام تھام کر مشاعرہ گاہ تک لانے کی سعادت ملی ـــــ اور پھر نائن زیرو کراچی سے لال قلعہ دہلی تک اور سرینگر سے پانی پت تک سخن کے معرکے سر کیے۔
ایسا لگتا ہے کہ جاوید احمد کا خمیر موسیقی سے اٹھا ہے۔ کراچی ریڈیو میں اسے اور جلا ملی جب مہدی حسن کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر سے انہوں نے باقاعدہ موسیقی سیکھنا شروع کی۔ پھر تو وہ رنگ چڑھا کہ منیر نیازی نے بے خود ہو کر ماتھا چوم لیا۔ جشنِ جان ایلیا میں بکھرنا ٹوٹنا بھی اور ہوا کے ساتھ بھی رہنا ترنم سے پڑھی تو لوگ حنا تیموری کا ترنم بھول گئے۔
2001 میں آزادی کشمیر کے حوالے سے ان کی نظموں اور ترانوں کا مجوعہ دنیا کے منصفو! چھپا اور ہاتھوں ہاتھ نکل گیا۔ جاوید احمد کی شاعری، عبداللہ مرحوم کی موسیقی اور رخسانہ مرتضٰی کی آواز صدر ہاوس کی آہنی دیواروں سے چھنّا گئی اور صدارتی تحسین کی مستحق ٹھہری ؎
بس اتنی سی مری تقدیر بدلی ۔۔ کبھی ذنداں کبھی زنجیر بدلی
نہ ان آنکھوں نے اپنے خواب بدلے ۔۔ نہ خوابوں نے کوئ تعبیر بدلی
اس سے پہلے 1997 میں ''مثال'' چھپی جس کے معیار کو اردو کے سرخیل سخنوروں نے سراہا۔ جناب ظفر اقبال نے لکھا کہ جاوید احمد نے جدید تر غزل کے امکانات میں اضافہ کیا ہے۔ افتخار عارف نے کہا کہ جاوید احمد دل کے لہجے میں گفتگو کرتے اور ان کے جذبے دلوں کو چھوتے ہیں۔ رشید امجد نے لکھا کہ ان کی شاعری نئے جہانوں کے اسرار کھولتی ہے۔
لمحہ لمحہ ترے خیال میں ہے ۔۔ زندگی عالم مثال میں ہے
''مثال'' کی بے مثال پذیرائی کے بعد امکاناتِ آئندہ کے دھنک رنگ لیے اب ان کا تازہ مجموعہ کلام ''مٹی کا شجر'' شائع ہوا ہے ؎
کھلے ہیں مجھ میں امکاناتِ آئندہ کے بھی رنگ
نرالی میری خوشبو ہے میں مٹی کا شجر ہوں
ہماری خوش نصیبی ہے کہ ایک ایسا عالی دماغ شاعر ہمارے درمیان موجود ہے جس کا لہجہ اس سنگلاخ لسانی پٹی میں تہذیبی زرخیزی لیے ہوئے ہے۔ زندہ معاشرے زرخیز ذہنوں کو اپنا فخر سمجھتے ہیں۔ ''مٹی کا شجر'' کی پذیرائی سے ہمیں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔