جی
ٹی روڈ پر قلعہ روات کے باہر لگے معلوماتی بورڈ کے مطابق 'روات رباط کی بگڑی ہوئی
شکل ہے۔ یہ قلعہ سلطان محمود غزنوی کے بیٹے مسعود کے ساتھ بھی منسوب کیا جاتا ہے
جسے اس کے لشکر کے باغی سپاہیوں نے یہاں گرفتار کیا اور بعد میں ٹیکسلا کے نزدیک
گڑی میں قتل کر دیا۔'
جرنیلی سڑک کے دہانے سرائے راجو، سرائے خربوزہ، سرائے کالا، سرائے کھولا اور سرائے بیگم ایسی کچی پکی سراؤں کی دیسی قطار میں عربی لفظ رباط سراب سی دلفریبی رکھتا ہے۔ دھیان کجھور کی شاخوں سے چھناتا ہوا کاروان کی گھنٹیوں میں کھو جاتا ہے۔ پوٹھوہار مکران و مہران کی طرح ابنِ قاسم کی زد میں نہیں رہا۔ لیکن کچھ عرب مورخوں نے غزنویوں کا مارگلہ تک تعاقب کیا ہے۔ جنہیں تاریخ کا فرشتہ اپنے تخیل کے پروں پر جہلم لے آیا اور یوں غزنوی تاریخ سرائے روات سے منسوب ہو گئی۔
غزنوی تاریخ سے اس ربط نے اس عمارت کی قدامت میں ہی اضافہ نہیں کیا بلکہ اسے عظمت اور شوکت بھی عطا کی ہے۔ اور ایسا محکمہء آثارِ قدیمہ کے کسی گھاگ افسر کی کاروائی نہیں جس نے اس شکستہ عمارت کو چمکانے اور سیاحوں کو چونکانے کے لیے ایسا کیا ہو۔ بلکہ یہ ایک تاریخی غلط فہمی ہے۔
سلطان مسعود غزنوی کا وسط ایشیا میں حکمرانی کا خواب ٹوٹا تو وہ خزانے سمیت غزنی سے لاہور کے لیے نکلا۔ دریا کراس کرتے ہوئے لشکریوں نے خزانہ لوٹ لیا۔ مسعود رباط مارگلہ میں قلعہ بند ہو گیا۔ لیکن پکڑا گیا اور قلعہ گری میں قتل کر دیا گیا۔ مورخین کی اکثریت نے جائے وقوعہ دریائے سندھ (اٹک) بتائی ہے۔ لیکن پانچ سو سال بعد ابوالقاسم فرشتہ نے دریائے سندھ کے ساتھ دریائے جہلم کا اضافہ کر دیا۔
اکبر نامہ میں ابوالفضل دسمبر 1592ء میں کشمیر سے اکبر کی واپسی کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ '....قافلہ راول پنڈی، رباط، نگرکوٹ، ٹھہٹہ، و سرائی خسرو سے ہوتا سرائی ہر میں جا رکا۔'یہاں راولپنڈی کے علاوہ کوئی نام درست نہیں ہے۔ یہیں سے روات سرائے کے لیے لفظ رباط کا سفر شروع ہوتا ہے۔
یہ عمارت جرنیلی سڑک کے دہانے ہے۔ تھوڑے فاصلے پر مانکیالہ اسٹوپا ہے لیکن گیارہویں سے سولہویں صدی تک کے سفر ناموں بلکہ کسی بھی تحریر میں یہ عمارت تو کیا اس علاقے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ پہلا ذکر اطالوی پادری مونسیراٹ کی کمنٹری میں ملتا ہے۔ جس کے مطابق1581ء میں اکبر کے لشکر نے مانکیالہ کے بعد Rhavadum میں پڑاؤ کیا۔ اکبر کا ہندوستان میں مبارک علی نے اس کا ترجمہ روات کیا ہے۔ 'وجہ تسمیہ دیہہ پرگنہ پھروالہ دانگلی' میں مانکیالہ اور روات کے درمیان کوئی ایک گاؤں بھی ایسا نہیں ہے جس کا نام حرف 'ر' سے شروع ہوتا ہو۔ دو اور سفر ناموں میں بھی اس جگہ کا ذکر ہے۔ ایک فرانسیسی جم مرچنٹ Jean Baptiste Tavernier نے 1650ء میں اس سرائے کو اپنے سفر نامے میں roupate اور سترہویں صدی کے بھوٹانی زائر 'تگ تس راس پا' نے 'RAVATA' لکھا ہے۔
رباط کے لفظ کو تقویت دنی چند اور برج ناتھ نے بھی دی ہے۔ کیگوہر نامہ کے مطابق آدم خان نے اپنے بھائی اور برادر زادوں کو سرائے رباط میں دفن کیا۔ وجہ تسمیہ دیہہ پرگنہ دان گلی پھرہالہ کے مطابق سلطان سارنگ خان نے سرائے تیار کیا اور نام رباط مشہور ہوا۔
سن 1765ء میں سکھوں نے اس سرائے کو کھنڈر بنا دیا۔ اس لیے انگریز دور میں بھی اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ دو سو سالہ خستہ حالی کے بعد 1955ء میں اسے محکمہء آثارِ قدیمہ کے حوالے کیا گیا۔ چونکہ مارگلہ کے قریب یا سندھ اور جہلم کے درمیان کسی رباط کا سراغ نہیں ملا، اس لیے یہ خیال عام ہو گیا کہ شاید یہی وہ رباط ہے جہاں مسعود گرفتار ہوا۔فضاؤں میں موجود اس تاثر کو اس کے معلوماتی بورڈ پر درج کر دیا گیا۔ مسعود غزنوی یہاں گرفتار ہوا، نہ ٹیکسلا میں کوئی قلعہ گڑی ہے اور نہ ہی روات رباط کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ (اردو کالم : https://urducolumn.idaraeurdu.org/article/2356)
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔