لفظ 'گری' سماعت کی گلیوں سے گزرتا ہے تو دہن اخروٹ اور بادام کے ذائقوں سے تر ہو جاتا ہے۔ ہم گری کو گڑھی کی رواں شکل سمجھتے رہے لیکن گری چیزے دیگری نکلا۔ رگ وید میں سرسوتی کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ گری سے ساگر کی اور جاتا ہے۔ اس لیے ٹیکسلا سے سری لنکا تک پہاڑی چوٹیوں کے نام میں گری بطور لاحقہ راج کرتا نظر آتا ہے۔ ابوالفضل بیہقی سے ابوالفضل علامی تک مختلف مورخین کے ہاں اس جگہ کا نام گری، کری، کبری، گیری، کیری، کبیری، کیکی وغیرہ ملتا ہے۔ اہلِ ٹسکلا اسے گِڑی کہتے ہیں۔
گری
مارگلہ کے دامن میں ہے۔ مارگلہ کے ایک طرف بدھ مت کا تاثر غالب ہے اور دوسری طرف
اسلام کی چھاپ مقابلتاً نئی ہے۔ اسلام آباد بننے سے بہت پہلے مارگلہ میں سبز چولوں کی بہار آ چکی
تھی۔ شاہ اللہ دتا، گولڑہ اور بری امام کی راہیں گری سے گزرتی تھیں۔ زائر، تاجر اور
مسافر گری کے چشموں کا پانی پیتے، بن فقیراں میں نہاتے، حنجیرہ (شاہ اللہ دتا) کی
غاروں میں جا قیام کرتے تھے۔
ہم
ٹیکسلا میوزیم کی گیلریوں میں گری سے ملنے والے نوادرات تلاشتے، آشوکا کے دھرما
راجیکا کا طواف کرتے، شاہ ڈھیری سے ہوتے، ڈھوک خرم پراچہ سے گزرتے، آہستہ خرام
بھکشوؤں کی طرح برساتی کس کے پتھروں کے سنگ سنگ مارگلہ کی آغوش میں گوشہ گیروں کی
جنت گری جا پہنچے۔
گری
دو حصوں (گری ون اور گری ٹو) پر مشتمل ہے۔ تقریباً چار ' لی ' پر پھیلے گری کمپلیکس
کے درمیان ایک تالاب، چھوٹی مسجد، پاک دامن بیبیوں کی زیارت، پرانا برگد اور پرشور
چشمہ ہے۔ ڈیڑھ سو سے زائد سنگی زینے پہاڑی کی ہموار چوٹی پر بدھی فیض کے قدیم سر
چشمے کی باقیات تک پہنچا دیتے ہیں۔
مارگلہ کے اس سرسبز دامن کو کشانوں نے گیروی رنگوں سے بھر دیا۔ جہاں پپہیوں کا شور تھا وہاں بدھ منتروں کی ہنہناہٹ سنائی دینے لگی۔ سردیوں میں برفانی علاقوں کے بھکشوؤں کی آمد سے گری کی رونقیں اور بڑھ جاتیں۔ بہار کے رنگ اور ساون کی گھٹائیں جب گری کا گھیراؤ کرتیں تو بھکشوؤں کے دل کے کنول کھل اٹھتے۔
ٹیکسلا میں دوسری صدی عیسوی تک 'ایشیا کے نور' کی چمک میں یونانی دیوتاؤں کے دمک بھی شامل ہو چکی تھی۔ کشان مہایان کا عہد ہے۔ ان ترقی پسند بھکشوؤں کا عقیدہ تھا کہ صرف مہایاں (بڑی سواری) ہی دکھی انسانیت کو سکون آشنا کر سکتی ہے۔
کشانوں کے بعد وسط ایشیا سے اٹھنے والی کالی آندھی گندھارا پر بجلی بن کر گری۔ مہر کلا بدھوں پر قہر بن کر ٹوٹا۔ سیاہ طینت ہنوں نے سرسبز مارگلہ کو بھکشوؤں کے خون سے سرخ کر دیا۔ جشنِ فتح میں بھکشوؤں کی کھوپڑیوں میں شرابیں پی گئیں۔ کسی دیوتا نے آواز سنی، نہ کوئی منتر کام آیا۔ راج ترنگنی کے مطابق بدھوں کے غارت گری میں برہمن مہر کلا کے معاون تھے۔
اس
کے بعد گری تو کیا خود ٹیکسلا کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ شہر خاک کی چادر تان کر
سو گیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان خاکی ڈھیریوں میں کیا چھپا ہے۔ سینہ بہ سینہ یہ
روایت ضرور سفر کرتی رہی کہ یہ شاہوں کی ڈھیریاں ہیں۔ جنہیں 1913ء میں جان مارشل
کے دستِ مسیحا نے پھر زندہ کر دیا۔ گائیڈ ٹو ٹیکسلا (کیمبرج ایڈیشن) میں انہوں نے
گری کے عنوان سے مفصل مضمون لکھا ہے۔ جس
کا خلاصہ یہ ہے کہ بیرونی یلغار کی صورت میں دھرما راجیکا اور دیگر قریبی خانقاہوں
کے بھکشوؤں کی یہ جائے پناہ تھی۔ اس کی دور افتادگی بتاتی ہے کہ بھلے یہ جتنا بھی
عرصہ آباد رہا ہو اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔
یہ
بات زمانے سے مشہور چلی آرہی ہے کہ یہ بدھ خانقاہ
بعد میں غزنوی قلعہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی اور بت شکن کی آل کے زوال کی
داستان کا دیباچہ بھی یہیں رقم ہوا۔ لیکن جان مارشل کی 'راہنمائے ٹیکسلا' اس کی
واحد شناخت بدھی خانقاہ کے طور پر کرتی ہے۔ ڈاکٹر اشرف کا آثاریاتی سروے اور ایک
تازہ آثاریاتی رپورٹ بھی جان مارشل کی تائید کر رہی ہے۔ لیکن بات چونکہ آلِ بت شکن
کی ہے، جس کی تصدیق ڈاکٹر احمد حسن دانی نے کی ہوئی ہے، اس لیے اسلام آباد کے داخلی
دروازوں پر واقع گڑی اور روات کے نام نہاد قلعوں کی تاریخ کی درستی کی کوئی صورت
نظر نہیں آتی۔
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔