پیر، 14 اپریل، 2025

جاوید احمد - سکوتِ شب کا نقیب

0 تبصرے


جاوید احمد - سکوتِ شب کا نقیب

( 14اپریل 2024ء -جاوید احمد کی پہلی برسی کے موقع پر)



کبھی کبھی کوئی ستارہ یوں چمکتا ہے کہ مقدر کا در کھل جاتا ہے،  تخلیق کی روشنی اترتی ہے، اور لفظ    نگینوں کی طرح جگمگانے لگتے ہیں۔ایسی ہی ایک ساعتِ سعید میں، کہوٹہ کے سرسبز کوہسار کی ایک سربلند چوٹی — سوڑ — پر،  ایک عاشقِ اقبال، محمد اقبال کے ہاں ایک ستارہ نمودار ہوا۔ فرزندِ اقبال کے نام پر اس کا نام "جاوید" رکھا گیا، اور پھر یہ جاوید... جاوداں ہو گیا۔

  جاوید احمد کی شاعرانہ جبلّت فطرت کی گود میں پروان چڑھی، مگر اس کی سمت منفرد تھی۔ جہاں  پرندے پالنے کی روایت تھی، وہاں انہوں  نے لفظوں کی پرورش کی — اور پھر لفظ ان  پر نثار ہو گئے  ؎

لفظ وہ پرندے ہیں، پیار اُسی سے کرتے ہیں
جس نے ان کو رکھا ہے، جس نے ان کو پالا ہے

ان  کی نگاہ نے اوروں کی طرح صرف فطری مناظر کو نہیں دیکھا، بلکہ انہیں سماج سے ہم آہنگ کیا؎

آسماں پر لمبے چکر چیلوں کے
اور زمیں پر دائرے تنگ فصیلوں کے

البتہ سپہ گری کی روایت برقرار رہی۔ لیکن عسکری  ڈسپلن ان کی شاعرانہ طبیعت پر بار تھا۔اس لیے  اسی کی دہائی کے اوائل میں انہوں نے ریڈیو پاکستان کراچی جائن کر لیا۔ گویا سوڑ کی  یہ تخلیقی آبشار تخلیق کے سمندر سے جا ملی۔

کراچی ریڈیو ان دنوں سارہ شگفتہ، فاطمہ حسن، حمایت علی شاعر، منظر ایوبی اور امید فاضلی جیسے دانشور تخلیق کاروں کا مرکز تھا۔ مزید جاننے کی جستجو  انہیں ' اردو کالج' لے گئی،  جہاں انہیں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ابوالخیر کشفی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری جیسے عہد ساز اساتذہ سے اکتساب کا موقع ملا۔ کالج کے بہترین شاعر کے انتخاب کے لیے طرحی مشاعرہ ہوا۔ مصرع طرح تھا:"کہہ رہا ہے موجِ دریا سے کنارہ شام کا"، جب جاوید احمد گویا ہوئے تو گویا جاوداں ہو گئے؎ 

لے گئے وہ ساتھ اپنے حُسن سارا شام کا
ہجر کی تصویر ہے اب ہر نظارہ شام کا
لوٹ کر وہ شام سے پہلے ہی گھر آنے لگے
ان سے شاید چھن گیا کوئی سہارا شام کا

کراچی میں ان دنوں اردو ادب میں جدید تر رجحانات کے بانی قمر جمیل صاحب  کے حلقے کا شہرہ تھا۔اسی حلقے سے جاوید احمد کی جاودانی کا سفر شروع ہوا۔ ان کی  شعر فہمی نے نئی کروٹ لی اور درد، آرائشِ فن کی بنیاد ٹھہرا۔ لفظ منشور بنے اور خیال کی دھنک ان میں جھلملانے لگی۔ ان کا کلام قمر جمیل صاحب کی ادارت میں شائع ہونے والے اردو کے رجحان ساز مجلے "دریافت" کی زینت بننے لگا۔

 جاوید احمد میں  آہنگ کی طرف قدرتی لپک تھی۔ سوڑ، پوٹھوہار کے مشرقی کوہستانی سلسلے کے ان مقامات میں سے ایک  ہے جہاں سیلانی مجذوب بری امام کی بیٹھکیں ہیں۔ ایک زمانے سے یہاں نوبت بج رہی تھی، لیکن یہ صدا جاوید احمد کی سماعتوں کی بجائے دل کے پردے پر دستک دینے لگی؎

چوبکِ سوختہ رہی نوبتِ بے صدا کے پاس
جل کے کرشمہ ساز نے مجھ کو گدازِ فن دیا


  ریڈیو پاکستان کراچی  میں مہدی حسن کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر نے انہیں  سروں کے اسرار سے آشنا کیا، تو آواز وجد آفریں ہو گئی۔  مشاعروں میں تحت اللفظ  کے بعد  ترنم سے غزل سناتے تو وقت ٹھہر جاتا۔ خصوصاً یہ غزل جس میں پیچیدہ انسانی  نفسیات کے دلکش اظہار  کو ان کی آواز نے امر کر دیا؎

بکھرنا، ٹوٹنا بھی اور انا کے ساتھ بھی رہنا
ستم ایجاد بھی کرنا، وفا کے ساتھ بھی رہنا


سوڑ کے اس ستارے نے 1990ء میں دبئی میں سخن کی کہکشاں کو جا لیا۔ "جشنِ جون ایلیا" میں جاوید احمد کا کلام سنا نہیں محسوس کیا گیا؎

 اپنی   وحشت لیے جا کہیں اور جا، دل مرا چھوڑ دے
اے شبِ روسیاہ، میرے مہتاب کا راستہ چھوڑ دے

1993ء میں حکومتِ پاکستان کے نمائندہ شاعر کی حیثیت سے بھارت کا دورہ کیا۔ جہاں درِ  غالب پر حاضری کی ان کی دیرینہ حسرت پوری ہوئی۔


 کراچی کے بعد پشاور اور راولپنڈی سے ہوتے ہوئے جب وہ کہوٹہ واپس آئے تو  وہ جاوداں ہو چکے تھے۔  کہوٹہ جسے عبدالقدیر خان نے جوہری شناخت دی، جاوید احمد نے اسے فکری، ادبی اور شعری شناخت عطا کی۔ اور  کہوٹہ کو ملک گیر ادبی منظرنامے پر لا کھڑا کیا۔

 ان کا پہلا شعری مجموعہ مثال 1997ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کا عنوان ممتاز شاعرہ ثمینہ راجہ نے جاوید احمد کے ایک خوبصورت شعر سے متاثر ہو کر تجویز کیا؎

لمحہ لمحہ ترے خیال میں ہے
زندگی عالمِ مثال میں ہے

 یہ عنوان نہ صرف شعری فضا کا آئینہ دار ہے بلکہ جاوید احمد کے تخلیقی مزاج، جمالیاتی وژن اور وجودی اسلوب کو بھی نہایت خوبصورتی سے سمیٹتا ہے۔

مثال کو  اردو دنیا کے مقتدر شعرا نے نہایت پذیرائی بخشی۔ وزیر آغا نے ان کی غزل کو سمندر کی گہرائیوں سے ابھرنے والی اس موج سے تشبیہ دی جو بگڑتی کم، بنتی زیادہ ہے۔ رشید امجد نے ان کی شاعری کو روایت، رچاؤ اور جدید حسیت کا حسین امتزاج قرار دیا۔ جلیل عالی کے نزدیک جاوید احمد ایک "جینوئن اور مشکل شاعر" ہیں، جو بہت سی سمتوں کا مسافر ہے۔اختر عثمان نے لکھا کہ جاوید احمد نے روایتی لفظوں کو روایتی مضمون میں استعمال کرنے کی بجائے لفظوں کے نئے کنگرے دریافت کیے ہیں۔ جب کہ افتخار عارف نے ان کے اشعار میں رس، نرمی اور مٹھاس کی آمیزش کو ان کا طرۂ امتیاز کہا۔ ظفر اقبال نے انہیں جدید غزل کے اسلوب و امکانات میں حیرت انگیز اضافہ کرنے والا شاعر قرار دیا۔ ان آرا سے جاوید احمد کی فکری گہرائی، فنی انفرادیت اور شعری امتیاز کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔

کشمیر کی تحریکِ آزادی کے باب میں جاوید احمد شعری محاذ پر ہر اول دستے کے سالار تھے۔ 2001ء میں کشمیر پر ان کی کتاب "اے دنیا کے منصفو!" منظر عام پر آئی۔جس پر انہیں صدارتی ایوارڈ ملا۔ ان کی نظم 'اے دنیا کے منصفو!' نے  مسئلہ کشمیر کو عالمی ایوانوں تک پہنچایا۔ رخسانہ مرتضیٰ اور حنا صدیقی نے اسے گایا تو یہ نظم تحریکِ آزادیٔ کشمیر کا ترانہ بن گئی؎

 اے دنیا کے منصفو!
سلامتی کے ضامنو!
کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے ہوئے خون کا شور سنو!

ادب، سیاست، مذہب، تصوف اور فلسفہ سے انہیں خاص شغف تھا، اور یہی دلچسپیاں ان کی شاعری کے فکری پس منظر میں جھلکتی ہیں۔ 2016ء میں ان کا شعری مجموعہ "مٹی کا شجر" شائع ہوا۔ جب وہ کہتے ہیں کہ "نرالی میری خوشبو ہے، میں مٹی کا شجر ہوں"—تو یہ صرف ایک سطر نہیں، بلکہ خاکی انسان میں پنہاں اس کی وجودی، اساطیری اور فلسفیانہ معنویت کا استعارہ ہے۔

غزل جاوید احمد  کا بنیادی حوالہ تھی۔2020ء میں ان  کی غزلیات کا انتخاب "ایک پردہ سخن سے آگے ہے"  دلاور علی آذر نے  شائع کیا۔


اردو کے ساتھ ساتھ انہوں نے  ' پوٹھوہاری' میں بھی کلام تخلیق کیا۔ یہ کلام مصری  کی ڈلیوں اور  بیری کے شہد کی طرح میٹھا اور رسیلا ہے؎

اپنڑی اپنڑی سب پے بانڑے، تو وی تے کج بول یرا
چپ تروڑ تے سامنڑے آ، ہونٹاں نے جندرے کھول ذرا

6 اپریل 2024 کو ان کی سالگرہ کے موقع پر کہوٹہ کے ادب دوست  ان کے گرد حلقہ کیے بیٹھے تھے۔ نقاہت  بہت بڑھ چکی تھی لیکن اس کے باوجود وہ گھنٹوں باتیں کرتے اور کلام سناتے رہے۔۔۔دس دن بعد، 14 اپریل کو، حیاتِ جاوید پا گئے؎

ڈوبتے جا رہے ہیں لوگ اس میں
یہ زمیں خاک کا سمندر ہے

 ان کی غیر مطبوعہ غزلوں کے مجموعہ"وارفتہ" پر جاوید احمد کے مستقل  حلقہ نشین حسیب علی، عدنان نصیر اور حسن ظہیر راجہ کام کر رہے ہیں، جو بہت جلد منظرِ عام پر آ جائے گا۔ کیا اچھا ہو کہ لگے ہاتھوں  اس جاوداں شخصیت کی انمول یادوں کو بھی محفوظ کر لیا جائے۔


 بلاشبہ جاوید احمد بطور شخص اور شاعر سدا بہار ہیں۔ ان کا آفاق گیر کلام ہی لوگوں کے دلوں پر ثبت نہیں ہوا، ان کی وجد آفریں آواز کی حاکمیت بھی دائمی ہے۔ٖ ان کی ایک بڑی  خوش نصیبی یہ بھی ہے کہ  ان کے فرزند حسن جاوید اور شعری ورثے کے امین حسن ظہیر راجہ، جاوید احمد کے خوابوں کی تعبیر دینے  کا ذوق، ظرف، فراست اور ولولۂ تازہ  رکھتے ہیں۔ بہت جلد "کہوٹہ لٹریری سوسائٹی" اردو کے شعری افق پر نئی آب و تاب سے جلوہ گر ہو گی۔ ان شااللہ تعالی !!

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔