منگل، 7 دسمبر، 2021

قلعہ گری اڈی گرام (سوات) میں ہے

0 تبصرے


سر بلند کوہساروں، سرسبز وادیوں، سرمست دریاؤں اور ثمر بار پیڑوں کی سرزمین سوات سیاحوں کی جنت اور پاکستان کا سوئٹزرلینڈ کہلاتی ہے۔ چشموں سے امڈتا اور گلئشیرز سے پگھلتا سفید اور چمکیلا آبِ سوات مستقل سفر میں رہتا ہے۔ اس کی مٹھاس نے مقامی میوؤں اور مکینوں میں شیریناں بھر دی ہیں۔ سواتیوں کے دل کے حجرے آنے والوں کے لیے صدیوں سے کھلے ہوئے ہیں۔

دریا کے پاٹ کے پھیلاؤ نے اوڈی گرام پر سکوت طاری کیا ہوا ہے۔ یہاں وہ حیرت افزا خاموشی ہے کہ گیان دھیان کے بنا آتمائیں شانت اور شریر مکت ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے یہ ہندھتوا اور بدھستوا کا پراچین استھان رہا ہے۔ سواستو گویا سرسوتی رواں ہے۔ ‘ایلم’ کی چوٹی پر رام چندر جی بن باس گزار رہے ہیں۔ ‘جوگیانو سر’ پر ان کا تخت بچھا ہوا ہے۔ بدھا کا پدما سمبھاوا (دوسرا جنم) ہوتا ہے۔ سواستو میں کنول تیرتے ہیں۔ فضائیں جاتک کتھائوں سے مشکبار ہوتی ہیں۔ ڈبل ڈوم وہار اور اسٹوپاز بنتے ہیں۔ اشوکا اور کشان ‘اوڈی’ کو زعفران زار بنا دیتے ہیں۔ اس کے شوخ رنگوں کی شہرت جب ہندوکش کراس کرتی ہے تو شکاری اوڈی کا رخ کرتے ہیں۔ مقامی لوگ ان سے بچنے کے لیے پہاڑ کے دامن میں بستی بساتے ہیں جس کی چوٹی (گری) پر ‘راجہ گیرا’ کا محل ہے۔

اوڈی گرام کے مشرق میں دو کلومیٹر کے فاصلے پر پانچ سو فٹ کی ٹریکنگ ہمیں راجہ گیرا کے محل کے کھنڈرات تک لے گئی۔ جہاں میں ہی نہیں میرے ہمسفر وسیم اختر مغل، عمران یونس اور ثاقب لطیف بھی بے اختیار پکار اٹھے کہ یہی وہ قلعہ گری ہے جسے ہم کری شہر، گڑی ٹیکسلا اور شہباز گڑھی میں تلاش کرتے رہے۔ اسی کے بارے میں البیرونی  نے کتاب الہند مین لکھا تھا کہ ‘ہم نے قلعہ راجکری اور قلعہ لاہور سے خوبصورت قلعے نہیں دیکھے۔’ اور شاید یہ بھی البیرونی نے یہیں کہا ہو کہ ‘پرشوکت ہندو شاہیہ بےنشان ہو گئی لیکن اس کے شرفا میں راست روی کی خواہش اور جوش کبھی کم نہیں ہوا’۔

سامنے پہاڑ کے دامن میں دریائے سوات رواں ہے۔ دریا اور گری کے درمیان مرکزی سڑک ہے۔ جس پر حخامنشی، یونانی، کشانی، چینی، تھائی، بھوٹانی، جاپانی اور غزنوی گزر رہے ہیں۔۔۔ دسمبر 1040ء کے اواخر میں سلطان مسعود اور بیگم سارا خاتون کو گرفتار کر کے لایا جاتا ہے۔ 17 جنوری 1041ء کو بھتیجا احمد آتا ہے اور45 سالہ چچا کی گردن اتار دیتا ہے۔ مودود ابن مسعود اپنے چچا محمد کو اور بھتیجے احمد کو مار دیتا ہے اور سلطان مسعود غزنوی کی میت گری سے غزنی منگواتا ہے۔

عبرت کی اس جا پر سیاحوں کا تماشا لگا ہوا ہے۔ سلفیاں بن رہی ہیں۔ ویڈیو گرافی ہو رہی ہے۔ کسی کو خبر نہیں کہ یہی وہ راجکری ہے جس سے زیادہ خوبصورت قلعہ البیرونی نے نہیں دیکھا تھا، یہی وہ گیری ہے جہاں بیہقی کے بقول غزنوی اشراف کو سزا یا نگرانی کے دنوں میں رکھا جاتا تھا۔ یہی وہ کیری اور کوہ پایہ ہے جسے چنگیز خان 1221ء میں فتح کرتا اور تین ماہ اس پر قیام کرتا ہے۔ یہ وہ Rayik’r ہے جس پر تیرہویں صدی کے تبتی زائر ‘ارجن پا’  کے پاؤں پڑتے ہیں۔ یہ وہ ‘رائی سر’ ہے جسے ستارہویں صدی میں ایک بھوٹانی زائر ‘تگ سن راس پا’ سر کرتا ہے۔ یہی وہ گڑھی ہے جسے آقائے حبیبی نے نامعلوم لکھا ہے اور ایڈمنڈ بوس ورتھ شہباز گڑھی اور کپور  دا گڑھی بتاتا ہے۔ یہی وہ گڑی ہے جسے سرائے روات کا معلوماتی بورڈ ٹیکسلا میں بتاتا ہے۔

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔