منگل، 7 دسمبر، 2021

0 تبصرے


کہوٹہ سنگلاخ لسانی پٹی میں واقع ہونے کے باوجود ان چھوٹے شہروں میں شمار ہونے لگا ہے جہاں سخن کے چراغ کی لو بہت تیز ہے۔ مشاعرے، شعرا کے ساتھ شامیں اور کتابوں کی رونمائی اور پذیرائی کی تقاریب شہر کا معمول ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال اختر عثمان کا شعری مجموعہ چراغ زار کی تقریبِ رونمائی ہے۔

اختر عثمان کا شمار اردو شاعری کی توانا آوازوں میں ہوتا ہے۔ ہمہ جہت اور قادر الکلام کے الفاظ جن شاعروں کو زیبا ہیں ان میں ایک اختر عثمان ہیں۔ جناب اردو، ہندی، فارسی، انگریزی، پنجابی اور پوٹھوہاری زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ اسی کی دھائی کے اواخر میں منظرِ عام پر آنے والے اس شاعر نے اپنے غیر معمولی تنقیدی شعور کے باعث نوجوانی میں ادبی حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ اردو سخن کے شبستان میں پانچ چراغ قلم رو، ہم کلام، کچھ بچا لائے ہیں، ابد تاب، ستارہ ساز کے نام سے روشن کرنے کے بعد اب ان کا نیا شعری مجموعہ چراغ زار منظرِ عام پر آیا رومیل پبلیکیشنز ہاؤس راولپنڈی کی شائع کردہ اس کتاب کی تقریبِ پذیرائی کہوٹہ لٹریری سوسائٹی کے زیرِ اہتمام ہوئی۔

14 دسمبر کی شام 5 بجے کہوٹہ جوڈیشل کمپلیکس کے راجہ انور ہال میں یوسف حسن کی صدارت میں اس تقریب کا آغاز ہوا۔ عبداللہ کمال، رفاقت راضی، جاوید احمد اور منظر نقوی نے چراغ زار پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

عبداللہ کمال نے اخترعثمان کی شاعری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مابعد جدید رویے میں لفظ کےآربیٹریری معنی لیے جاتے ہیں، اختر عثمان کے ہاں وہی لفظ کھنکتی ہوئی مٹی کو قوتِ گویائی عطا کرتے ہیں۔ جواں سال شاعر اور نقاد رفاقت راضی نے کہا کہ اختر عثمان بے پناہ شاعر ہے۔ اس نےغزل، نظم، مرثیہ، مثنوی ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی اور اسے وقار عطا کیا۔ کہوٹہ لٹریری سوسائٹی کے سرپرستِ اعلی جاوید احمد نے اخترعثمان کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مدت پہلے جب وہ اس قسم کے شعر کہہ رہے تھے تو لگتا تھا کہ کسی دن چراغ زار صورت پذیر ہو گی۔

منظر نقوی نے کہا کہ اختر عثمان اردو شاعری کا خوش نما چہرہ ہے۔ کلاسک کے گہرے رچاؤ کے باوجود  اس کا لہجہ جدید ہے۔ شعر کو لفظیات سے زیادہ شاعر کا رویہ اور متن  کی تازگی جدید بناتی ہے۔ صاحبِ شام اخترعثمان نے اس موقع پر جو اظہارِ خیال کیا اس میں  یہ شکوہ بھی موجود تھا کہ کچھ گھر کے چراغ زبان کو بے چراغ کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ آخر ایک تجربے کو تخلیقی تجربہ بننے کے لیے اور کتنا وقت لگے گا؟؟

تقریب کے آخر میں مشاعرہ ہوا۔ جس میں یوسف حسن، اختر عثمان، منظر نقوی، جاوید احمد، رحمان حفیظ، شمشیر حیدر، صغیر انور، عزیز فیصل، جہانگیر عمران، ڈاکٹر سلیم سہیل، ڈاکٹر اسد نقوی، رفاقت راضی، ڈاکٹر ریاض حسین، شیراز بشارت اور ذیشان ساجد نے بھی اپنا کلام سنایا۔ مقامی شعراء میں عبدالرحمن واصف، حسن ظہیر راجہ، قمر عباس، نوید فدا ستی، محسن ظفر ستی، فراز موسم، وقاص امیر اور حمزہ شفیق شامل تھے۔ یہاں پر چراغ زار کے ان اشعار کو درج کیا جاتا ہے جو اس تقریب میں سننے کو ملے۔



تم جو کہتے ہو ،وہ کہنا نہیں آتا مجھ کو ۔۔۔ ہنر حرف برہنہ نہیں آتا مجھ کو

تمہیں زیبا ہے مبارک ہو یہ پوشاک شہی ۔۔۔ تم نے جیسے اسے پہنا نہیں آتا مجھ کو

جوں بگولا میں سرِدشت اڑا پھرتا ہوں ۔۔۔ قیس رہتا رہے، رہنا نہیں آتا مجھ کو

ہم بادلوں کی اوٹ میں یخ بستہ تہہ بہ تہہ ۔۔۔ جیسے رگوں میں برف ہو پیوستہ تہ بہ تہہ

وہ ہاتھ میرے ہاتھوں میں ایسے پھنسے رہے ۔۔۔ جیسے بندھا ہوا گلدستہ تہ بہ تہہ

بے تہہ کوئی کلام کیا  ہے نہ ہو سکا ۔۔۔ میرا اک ایک حرف ہے برجستہ تہہ بہ تہہ

نکل چلو کہ یہ دنیا جمالِ دوست نہیں ۔۔۔ یہاں تو دادِ خدوخال تک نہیں ملتی

کہاں وہ دُور کہ ہم سے ہزارہا تھے یہاں ۔۔۔ کہاں یہ وقت کہ تمثال تک نہیں ملتی

سخن کی تاب نہیں’ بس اشارہ کافی ہے ۔۔۔ پلک پہ ٹھہرا ہوا اک ستارہ کافی ہے

بہانہ ساز سہی’ دل ہے’ کیا کیا جائے ۔۔۔ عجیب وضع کی مشکل ہے’ کیا کیا جائے

دریا کا طلاطم تو بہت دن کی کتھا ہے ۔۔۔ لیکن میرے دل کا بھنور کیوں نہیں جاتا

اختر، تری گفتار ِ فسوں کار میں کیا ہے ۔۔۔ جو بھی ادھر آتا ہے، ادھر کیوں نہیں جاتا

بہت سنبھال کے رکھ اے نگارِ زیست ہمیں ۔۔۔ عجب نہیں کہ ترے کھیلنے میں کھو جائیں

بلا کا شور ہے باہر دِلا ! ابھی چپ رہ ۔۔۔ ہوا کے ساتھ ہیں پتے ، کواڑ کیا کھولیں

چھوڑ بھی اے بنی ٹھنی ! تا بہ کجا یہ جانکی ۔۔۔  میں ہوں نرا شکستنی، توڑ کے مت بنا مجھے

ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ غم کچھ نہیں کہتے ۔۔۔ یوں ہے کہ ترے سامنے ہم کچھ نہیں کہتے

اپنے لیے اک درجہ بنا رکھا ہے ہم نے ۔۔۔ معیار ہے، معیار سے کم کچھ نہیں کہتے

تا عمر ہنر سیکھتے ہیں لوگ جو اختر ۔۔۔ اتنا تو سنبھالے ہوئے نکلا تھا میں گھر سے

اختر ہے ہمیں اذنِ سخن ختم رسل سے ۔۔۔ غیروں سے کبھی ہم نے اجازت نہیں مانگی

چراغ زار میں اختر عثمان کی لفظیات ستاروں کی طرح چمکتی ہیں۔ تراکیب کے دیے لو دینے لگتے ہیں۔ قطار در قطار امید کے چراغ  روشن ہیں۔ چراغ زار خیال کی رفعت اور قادر الکلامی کا مرقع ہے۔ جب اردو کے ان شعراء کی فہرست مرتب ہو گی جن پر اردو زبان ناز کر سکتی ہے تو اس میں اختر عثمان کا نام ضرور ہو گا۔

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔