کائنات
ایک حیرت کدہ ہے۔ ایک زمانہ انسان ان اسرار کے سامنے سجدہ ریز رہا ہے۔ مسلسل تحقیق
اور تجسس نے ان حیرتوں کے پردے چاک کیے اور انسان نے مریخ کو جا لیا۔ جوہری سائنس
کے ایک بڑے مرکز کہوٹہ آنے سے قبل میں سوچتا تھا کہ اس کے داخلی دروازے پر جلی
حروف میں یہ دعا لکھی ہو گی کہ اے اللہ، مجھے حقیقتِ اشیاء کا علم عطا فرما۔ اس کی
ورکشاپوں میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کے لیے کائناتی ورکشاپ کے میکنزم کو
سمجھنا آسان ہو گیا ہو گا اور سائنسی کلچر نے ٹھس تصورات کو شہر بدر کر دیا ہو گا۔
کہوٹہ
آیا تو میرے شوقِ دید کو دیکھتے ہوئے دوستوں نے شہر سے باہر ایک پہاڑی سلسلہ ”ڈولیاں”
دیکھنے کا مشورہ دیا، جہاں گستاخوں کے لیے عبرت کی نشانیاں ہیں۔ روایت کے مطابق دلہے کی ماں نے کوئی
منت مانی۔ مراد پوری ہو گئی لیکن منت پوری نہ کرنے پر تمام برات پتھرا گئی۔
ایک
دن دو کلومیٹر پر پھیلے اس پراسرارپہاڑی سلسلے کی سیر کو نکل گیا۔ اگر پہاڑی کو
ذرا توجہ سے دیکھا جائے تو شیر، ہاتھی، اونٹ، دلہا دلہن وغیرہ کا سرسری گمان گزرتا
ہے۔ پہاڑی کے سرے پر ایک ڈولی سی بنی ہوئی ہے جس کی بنا پر یہ علاقہ ڈولیاں کہلاتا
ہے۔
کہوٹہ
کی پہاڑیوں کا تعلق مری کے پہاڑی سلسلے سے ہے۔ جسے آسانی سے گوگل کیا جا سکتا ہے۔
اس کی عمر لاکھوں سال پر محیط ہے۔ عمر کے تعین کے لیے کاربن ڈیٹنگ کا سائنسی طریقہ
کار موجود ہے۔ ایسے مظاہر دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ کچھ پہاڑیاں اور چٹانیں
مختلف شکلوں سے اتنی مشابہہ ہیں کہ انہیں دیکھ کرانسان چونک جاتا ہے۔ بعض نقش و
نگار اتنے خوبصورت ہیں کہ نگاہیں مر مٹتی ہیں۔ خوابیدہ حسن کے بعض مظاہر انسان کو
کسی اور دنیا میں لے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس ضمن میں حتمی طور پر کچھ کہنا
مشکل ہے۔ یہی وہ خلا ہے جسے بڑی مہارت سے پر کر دیا گیا ہے۔
میں
پہاڑی پر بنے نقوش کو بغور دیکھتا پہاڑی کے وسط میں ”سید نورشاہ غازی بخاری
بادشاہ” کے مزار پر پہنچ گیا۔ لوح مزار پر صاحبِ مزار کا سن و سال درج نہیں۔ مزار
کے احاطہ میں خدمت گاروں (سائیوں) کی قبریں ہیں۔ مزار سے کچھ فاصلے پر مزار کے 90
سالہ خدمت گار سائیں وادی حسین کا گھر ہے۔ ان کے بقول ”میرے اجداد گلیانہ، گجر خان
سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈوگرہ راج سے پہلے ہمارے ایک بزرگ کو خواب میں اشارہ ہوا کہ
گرنڈا کے ایک ثمر بار درخت کے نیچے ایک ولی دفن ہیں۔ اس طرح پہلے قبر اور پھر مزار
بنا۔ جب نذرانے آنے لگے تو علاقے کے ایک سید نے اپنی حقداری کا مقدمہ دائر کر دیا۔
انگریز کلکٹر انکوائری کرنے موقع پر آیا لیکن اس کا گھوڑا مزار سے دو سو گز پہلے ہی
رک گیا۔ وہ پیدل مزار کی طرف چل پڑا لیکن مزار کی حدود میں داخل نہ ہو سکا۔ اس نے
جوتے اتارے، تب کہیں اس کے قدم اٹھے۔ کلکٹر نے نہ صرف فیصلہ سائیں کرم بخش کے حق میں
کیا بلکہ انہیں 13 کنال زمین، تین پشتوں تک مالیہ کی معافی، اعلی مالکانہ حقوق
اورنمبرداری بھی دی۔ اس کے علاوہ 12 کنال اراضی مزار کے نام کی۔
٭سب
بجا ہے لیکن کیسے پتا چلا کہ صاحبِ مزار کا نام سید نورشاہ غازی بخاری بادشاہ ہے؟
سائیں:
یہ ہمارے بزرگوں کے روحانی رابطے سے ہوا۔
٭روحانی رابطے سے ان کے عہد کا پتا نہیں چلا؟
سائیں:
اللہ کے اختیار میں ہے وہ جتنا چاہتا ہے بتا دیتا ہے۔
٭کیا
اس مزار سے منسوب برات کے پتھرانے کا واقعہ درست ہے
سائیں:
غیب کا علم اللہ جانتا ہے لیکن تمام گواہیاں موجود ہیں۔ جنہوں نے اولیاء اللہ کی
انکوائریاں اور گستاخیاں کیں وہ پتھرا گئے۔
طویل
خاموشی چھا گئی کیونکہ میں پتھرا چکا تھا۔
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔