کہوٹہ میں حضرت سخی سبزواری بادشاہ کا 8 روزہ سالانہ میلہ شروع ہے۔ الحمد للہ یہ بھنگ اور دیگر خبائث سے پاک ہوتا ہے۔ ہم نے سوچا کہ خوشی کے اس موقع پر اپنا حصہ ڈالا جائے۔ ویسے بھی بوجھل تحریریں پڑھ کرآپ تنگ آ چکے ہوں گے۔ اس لیے آپ کے ذوقِ لطیف کا خیال رکھتے ہوئے معاملات کو ہلکا پھلکا رکھا گیا ہے۔ چونکہ یہ مضمون ایسی بوٹی کے بارے میں ہے جس کے تصور سے ہی مدہوشی چھا جاتی ہے اس لیے ترتیب اور تناسب کی توقع رکھنا فضول ہے۔
کہوٹہ کی ہریالیوں میں بھنگ کا بڑا دخل ہے۔ کہوٹہ کا کوئی کونا ایسا نہیں ہے جس کی شادابیوں میں بھنگ نے سونے پر سہاگے کا کام نہ کیا ہو۔ لہذا اگر اس کا ذکر نہ کیا جائے تو احسان فراموشی ہو گی۔ ویسے بھی جب تک برقی لوح پر بھنگ کا اندراج نہ ہو ادھورا پن محسوس ہوتا رہے گا۔
پچھلے سال نسلِ نو کے مشاعرے میں ملتان سے آئے ہوئے شعرا ڈاکٹر وقار خان، عدنان آصف بھٹہ،عمار یاسر مگسی اور ارشدعباس ذکی کہوٹہ میں بھنگ کی کثرت دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ہمیں ان کی حیرت نے دم بخود کر دیا۔ ۔ہمار اب بھی خیال ہے کہ گرد، گرما، گدا اور گورستان کے ساتھ ساتھ بھنگ بوٹی بھی ملتان کی پہچان ہے۔
کوئی بھی چیز بے فائدہ نہیں۔ قدیم حکما نے اس کے جو خواص بیان کیے ان کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ یہ 72 بیماریوں کی قاتلہ ہے۔ گرمی کی رقیب ہے، جگر کے لیے اکسیر ہے، معدے کے لیے سوغات ہے، پیاس کی دشمن ہے، یہ ایک ایسا بیش بہا تحفہ ہے کہ اس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ صفحات اور سیاہی ختم ہو سکتی ہے بھنگ کی روشنائی ختم نہیں ہو سکتی۔
کہتے ہیں کہ اس بوٹی کو دعا ہے۔ ہر سال بڑے پیمانے پر اس کا قتل کیا جاتا ہے۔ آگ لگائی جاتی ہے۔ جڑ سے اکھاڑا جاتا ہے۔ لیکن مجال ہے اس میں کمی آئے۔ یہ کم ہو ہی نہیں سکتی کیوں کہ اس کا شمار مقدس بوٹیوں میں ہوتا ہے۔
بھنگ سادوؤں، سنتوں، صوفیوں اور ملنگوں کا نشہ ہے۔ جوانہیں مردود ماحول سے نکال کر آسمانوں پر لے جاتا ہے۔ بھنگی کو مخلوق چیونٹیوں سے بھی حقیر نظر آتی ہے۔ جمشید تو اپنے جام میں حالاتِ عالم کا مشاہدہ کرتا تھا جب کہ بھنگ کا پیالہ مریخ سے اگلے سیارچوں کا مشاہدہ کراتا ہے۔
آپ نے یہ منہ اور مسور کی دال کا محاورہ تو سنا ہو گا۔ یہ محاورہ اس طرح ہونا چاہیے کہ یہ منہ اور بھنگ کا پیالہ۔ کیونکہ یہ بڑا نخریلا نشہ ہے۔ یہ وقت، محنت اور پیسہ طلب تو ہے ہی ؛ پاکیزہ طبیعت کا تقاضا کرتا ہے۔ ۔ہرکس و ناکس اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
بھنگ اور حَشِیش آپس میں بہنیں ہیں۔ گو بھنگ کا لفظ حشیش کی طرح نشہ آور نہیں ہے لیکن خواب آورزیادہ ہے۔ بھنگ کی لسی کے اثرات تو شاید کم محسوس ہوں لیکن گولی جگر کے پار ہو جاتی ہے۔
فطرت نے جنگلی حیات کے تحفظ کا خود کار انتظام بھنگ کی کثرت کی صورت میں کر دیا ہے۔ اب اگر کوئی فطرت کے اشارے نہ سمجھے اس کا کیا کیا جائے۔ اس بیش بہا دولت کو گرین گولڈ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
بھنگ اور ترنگ ہم قافیہ نہ سہی لیکن مترادف ضرور ہیں۔ البتہ بھنگ اور رنگ ہم قافیہ ہیں۔ اسی لیے رنگ میں بھنگ ڈالنے کا محاورہ مشہور ہے۔
بھنگ کی تازہ برانڈوں میں؛ سائیں برانڈ، ملنگ برانڈ، قلندر برانڈ جب کہ خیبر پختون خواہ میں اسے مشعر برانڈ یعنی بزرگ برانڈ کہتے ہیں کہ نشوں میں اسے بزرگی بہرحال حاصل ہے۔
زندہ دلان پنجاب کا مشہور رقص بھنگڑا بھنگ پی کر کیے جانے کی وجہ سے بھنگڑا کہلاتا ہے۔ مجال ہے کوئی اور رقص اس کا مقابلہ کر سکے۔
بھنگ بے ضرر نشہ ہے اس سے نہ دانت خراب ہوتے ہیں نہ مسوڑے۔ یقین نہ آئے تو فٹ پاتھی دندان سازوں سے تصدیق کرا لیجئے۔
کوالیفائیڈ بھنگیوں سے ملنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو مزارات، مقابر اور قبرستانوں وغیرہ کا رخ کرنا ہو گا۔ کچھ خانقاہوں میں بھی یہ نایاب مشروب مل جاتا ہے۔
اگر بھنگ کے مخالفین ہماری تمام تر گزارشات کے باوجود اپنی اڑی پر قائم ہیں تو ان کا علاج شبیر حسن خان کے پاس ہے۔ وہ مکالات جوش کا پہلا مقالہ پڑھیں تو بھنگ تو کیا ڈوڈے کی کاشت شروع کر دیں گے۔
چائے کی مشہور اقسام میں برگد، پیپل، بھیکڑ اور بھنگ کی چائے شامل ہے۔ ان سب میں بھنگ اپنی گلاب خوشبو، صندل ذائقے کی وجہ سے مشہور ہے۔
باخبر بتاتے ہیں کہ شراب کا مزاج آتشیں جب کہ بھنگ کا مزاج آبی ہے۔نسوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ روشن دماغی کا باعث بنتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بھنگ روشن ضمیری پیدا کرتی ہے۔یہ حق شناسوں کا نشہ ہے۔شیشہ پینے والے بھلا بھنگ کی کرامات سے کیسے آشنا ہو سکتے ہیں۔ یہ دل نشین، سرور آور، غم شکن نشہ پنسلین کی صفات رکھتا ہے۔
بھنگ کا استعمال بہت آسان ہے۔ چاہیں تو بھنگ کے پتے کھا کر اوپر پانی پی لیں اور بغیر جہاز کے جا بجا کا سفر کریں۔ لیکن اگر اپ چاہیں تو اسے ہشت آتشہ کر سکتے ہیں۔ بادام، الائچی، کالی مرچ، خشخاش، گلاب کی پتیوں اور دودھ ملائی سے تیار ہونے والا آبِ حیات تمام مشروبات کا سردار اور جملہ امراضِ خبیثہ کا تیر بہدف علاج ہے۔
بھنگ شاہی نشہ ہے۔ نصیر الدین ہمایوں چرسی تو تھا بلا کا بھنگی بھی تھا اور اسے یہ سب وراثت میں ملا تھا۔ اس کے والدِ گرامی ظہیر الدین محمد بابر کی فتوحات کا راز بھنگ، چرس اور معجون تھا۔
ظہیر الدین بابر اس کی محض ایک مثال ہے۔ یہ اکثر فاتحین کا مرغوب نشہ رہا ہے۔ کیوں کہ یہ درد کی دوا ہے۔ جنگ میں بھنگ پی کر جائیں تو توپوں کے دھانے سرد ہو جاتے ہیں۔ تاریخی ریکارڈ کھنگالا جائے تو بھنگ مخالفیں کے چھکے چھوٹ جائیں۔ ان کی ہوائیاں اڑانے کے لیے ایک آدھ حوالہ ہی کافی ہو گا۔ عجاب گھر لاہور کے سامنے زمزمہ توپ کا اصل نام بھنگیانوالی توپ ہے۔ یہ سکھوں کی بھنگی مثل کے زیرِ استعمال رہی اور جنگوں میں فیصلہ کن کردارادا کرتی رہی۔ اس مثل کی وجہء شہرت بھنگ تھی۔ بھنگ پی کے توپ کا گولہ بھی نشے میں آ جاتا۔ ہمارے ہندو مہربان اسے مہادیو کا سایہ اور شیواجی کا اوتار سمجھے حالانکہ سب کمال بھنگ کا تھا۔
بھنگ کی کس کس صفت پر بات کی جائے۔ اس کی قامت، رنگت، پتوں کی ساخت اور خصوصاً خوشبو سب نشیلے ہیں۔ چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔
فقیری نشے پر پابندی سے جو عذاب نازل ہوئے ہیں وہ شمار و قطار سے باہر ہیں۔ ہیروئن، گانجا، مارفیا۔۔۔۔۔۔انگریز ذہین تھا اس نے اس کے استعمال کو آئینی تحفظ فراہم کیا ہوا تھا۔ جگہ جگہ بار اور بار کے ساتھ بھنگ شاپ۔۔۔۔مجال ہے سو سال کوئی بغاوت ہوئی ہو۔
کہتے ہیں بھنگ پر برف پڑ جائے تو یہ سونا بن جاتی ہے۔ اس سے گردہ نکالا جاتا ہے۔ اسے بھیڑ کی کھال میں رکھا جاتا ہے۔ پھر اسے دنبے کی کھال میں رکھا جاتا ہے۔ گردہ سرخ ہو جاتا ہے۔ پھر اسے آتش دکھائی جاتی ہے جس سے سیاہ ہو جاتا ہے۔
بھنگ ذی دماغوں کا نشہ ہے۔ ہمہ شمہ کے بس کی بات نہیں۔کسی صاحبِ بھنگ سے شجرہ نسب پوچھیئے۔ لگ پتا جائے گا۔ سقراط، بقراط یا افلاطون سے نہ ملتا ہو تو ہم لکھنا چھوڑ دیں۔
بھنگ کْے پیالے کا مقابلہ جامِ جمشید بھی نہیں کر سکتا۔ کائنات روشن ہو جاتی ہے۔ یہ ایسی سرشاری، بے نیازی اور بادشاہت عطا کرتا ہے کہ بھنگی کبھی خود کو سکندر سا زورآوراور آئن سٹآئن سا عالی دماغ محسوس کرتا ہے۔
اس ملامتی نشے میں سلامتی کی درجنوں صورتیں ہیں۔ چرس کے نشے میں بے برکتی ہے۔ چٹکی بھر چرس نکل آئے تو نام نہاد مہذب ممالک میں لٹکا دیتے ہیں۔ جب کہ بھنگ ٹنوں کے حساب سے ایکسپورٹ کی جائے تو پھر بھی کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہے۔
بھنگ کٹوروں سے پی جاتی ہے۔ مشاق بھنگی کٹورے تو کیا گھڑے چڑھا جاتے ہیں۔ ہر نشے کی انتہائی مقدار مقرر ہے۔ خطرے کے نشان کے بعد موت واقع ہو جاتی ہے۔ انسانی تاریخ میں ایک بھی واقعہ ایسا نہیں کہ بھنگ کے کثرتِ استعمال سے موت کے فرشتے حرکت میں آئے ہوں۔ جتنی چڑھا جائیں اتنا فائدہ مند ہے۔
الحمد للہ کہ ہمارے مقامی حکماء خالص بھنگ سے ادویات تیار کر رہے ہیں۔ ورنہ سندھ میں بھنگ کے نام پر گھاس ڈیڑھ ہزار روپے کلو میں بلیک ہو رہی ہے۔
یہ تو طے ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ لوکل مال پر گزارہ نہیں کرتی۔ پیپسی، کوکا کولا اور ایسے ہی دوسرے سوڈا مشروبات نے زرِ مبادلہ اور صحت کو تباہ کر دیا ہے۔ اس لیے بھنگ سوڈا فوراً جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھنگ نسوار، بھنگ پھکی، بھنگ چورن، بھنگ چاکلیٹ کو فوراً مارکیٹ کرنے ک اشد ضروری ہے۔
بھنگ کی برکات پر جتنی بھی بات کریں کم ہے۔ اس لیے جو کسر رہ گئی ہے وہ کمنٹس میں پوری کر دیجئے گا۔خصوصاً بھنگ شاعری کا ہمیں انتظار رہے گا۔ یہ بور، بے ترتیب، اور بھنگ آلود آرٹیکل آخر تک پڑھنے کا شکریہ۔
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔