کہوٹہ کلر روڈ پر نوگراں اور دکھائی کی
درمیانی ندی کراس کریں تو بائیں ہاتھ تقریباً
تین کلومیٹر کے فاصلے پر صدیوں پرانا برگد ساعی کی نشان دہی کرتا ہے۔ جہاں سنتالیس
اور وانا میں دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار ایک شہید کی قبر ہے۔
اپر اور لوئر ساعی کا مجموعی رقبہ تقریباً
4 ہزار کنال پر مشتمل ہے۔ یہاں کی اصل آبادی ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل تھی جو قیامِ
پاکستان کے وقت ہجرت کر گئے۔ موجودہ آباد کاروں میں سے کچھ تو دو اڑھائی سو سال
پہلے روات اور بیور وغیرہ سے آ کر یہاں آباد ہوئے اور بقیہ 47 میں شملہ، امرتسر
اور کشمیر سے ہجرت کر کے یہاں آئے۔
گاؤں میں ایک تاریخی اسکول ہے۔ جس کے
لیے جگہ 1851ء میں "رام جی" نے دی۔ شروع میں یہ تین کمروں پر مشتمل تھا
اور اس کی چھت لکڑی کی تھی۔ 1880ء میں یہ پرائمری، 1905ء میں لوئر مڈل اور 1917ء میں
اسے مڈل کا درجہ دیا۔ سن 47 سے 51 تک یہ سکول بند رہا اور سن 51 میں ماسٹر کالا
صاحب نے اسے دوبارہ کھولا۔
گاؤں کے شمال میں'کس' کے قریب ایک پہاڑی
پر 'عید گاہ' ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے دکھالی، کوٹ، نوگراں،
بمبلوٹ، لس، کلاہنہ اور ڈھیری وغیرہ سے قافلے کلمہ طیبہ لکھے جھنڈے اٹھائے اور
کلمے کا ورد کرتے اس عید گاہ کی طرف آتے تھے۔
ساعی کی حدود اس ندی تک ہیں۔ یہاں ایک
چشمہ (ناڑہ) ہے۔ ساتھ ''خواجہ خضر'' کی بیٹھک ہے جن کے دم سے چشمہ جاری ہے۔ کے آر ایل انسٹی ٹیوٹ آف
ٹیکنالوجی کی پانی کی ضروریات کے لیے کے آر ایل کے ماہرین کی ایک ٹیم نےتحقیق کی
توپتا چلا کہ ساعی سے کافی اوپر 'دھنیام' کے مقام سے پانی کی رگیں نکلتی ہیں۔
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔