اوڈی کے گھنے دامن کوہ میں بدھ بھکشو گیان میں مگن ہیں۔ دکھ سے نجات کے لیے ان کا دھیان نروان کی پرفریب وادیوں میں نکلا ہوا ہے۔ یہیں ایک وہار میں بدھم شرنم گچھامی، دھرمم شرنم گچھامی، سنگم شرنم گچھامی کی تکرار نے طلسم باندھا ہوا ہے۔ ادھر جھاڑ پھونک ہو رہی ہے، ادھر کالے دھاگے باندھے جا رہے ہیں۔ آج منگل وار ہے بھکشوؤں سے آشرواد لینے کے لیے اوڈی گرامیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں ۔۔۔ اچانک گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیتی ہیں، سموں کا شور اٹھتا ہے، نعرے بلند ہوتے ہیں، تلواریں ٹکراتی ہیں، اینٹ سے اینٹ بجتی ہے اور ‘اوڈی’ کا یہ دامن کوہ بھکشوؤں کا مرگھٹ بن جاتا ہے۔ وہار مسجد بنتی ہے۔ مجسمہ ساز محراب و ممبر تراشتے ہیں، امام مہامنت کا استھان سنبھالتا ہے، راستی کے ہشت اصول مٹا کر شش کلمات نقش کیے جاتے ہیں۔ بھکشوؤں کی کھولیاں حجروں میں بدلتی ہیں، گھنٹیوں کی جگہ اللہ اکبر کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔ ‘راجہ اشوکا’ سے شروع ہونے والا بدھ اقتدار اور ترک – کابل شاہیہ پیکار ‘راجہ گیرا’ پر تمام ہوتی ہے۔ اور یوں سینا وارمہ، اندرا ہوتی اور راجہ گیرا کے اُوڈی پر غزنی کا محمود سلطانی کرنے لگتا ہے۔
قلعوں
کو سر کرنے کی تاریخ غداروں، دراڑوں، جھنڈوں اور پانی کی بندشوں سے عبارت ہے۔ صرف
‘لو کوٹ’ نے غزنوی عزم عاجز نہیں کیا، قلعہ گری بھی غزنویوں کے لیے چیلنج بن گیا۔
رہی سہی کسر کہانیوں نے نکال دی۔ پانچ سو فٹ اوپر پانی پہنچایا گیا، مخبروں کی
اطلاع پر سپلائی لائن کاٹی گئی، راج کماری سے خوشحال کا معاشقے کا تڑکا لگایا گیا۔
غازی بابا کا بے سر لاشہ اوڈی گرامیوں کی
گردنیں اتارتا ہوا شہید ہوا۔ کوہستان گیرا کے دامن میں ‘غازی بابا خوشحال’ کے مزار
پر اب بھی میلہ لگا ہوا ہے۔
غزنوی
کی آنکھیں بند ہونے لگیں تو اس نے اپنی آنکھ کے تارے محمد غزنوی کو ولی عہد بنا دیا۔
مسعود غزنوی نے اس کی آنکھیں نکال کر نظر بند کر دیا۔ یہ کج رو مسعود خوش ذوق بھی
تھا۔ نوجوانی میں اس کی خواب گاہ کی دیواروں پر’کاما سوترا’ کے آسن نقش تھے۔ اس کے
جڑاؤ تخت پر طلائی زنجیروں سے ستر من سونے کا تاج
لٹک رہا تھا۔ اوڈی کی مسجد میں ستونوں کی قطاریں، پرت دار سلیں اور نفیس
جالیاں اس کے ذوق کی آئینہ دار ہیں۔
گیارہویں صدی میں خراسان کو مرکزیت حاصل تھی۔ مسعود اسے زیر کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ یہ دیرینہ خواب سلجوقیوں نے بکھیرا تو اسے جان و مال کے لالے پڑ گئے۔ اس نے راتوں رات خزانہ سمیٹا اور غزنی سے لاہور کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ راستے میں لشکریوں نے خزانہ لوٹ لیا۔ مسعود نے رباط مارگلہ میں پناہ لی۔ جہاں سے اسے قلعہ گری میں قید اور پھر قتل کر دیا گیا۔ لیکن مورخین گری کے نام اور مقام پر اتفاق نہ کر سکے۔ صدیاں گزر گئیں۔ 1927ء میں ایریل سٹین نے راجہ گیرا کھنڈرات کا سراغ لگایا۔ 1984ء میں اطالوی ماہرین آثاریات نے ایک کتبہ اور پھر مسجد دریافت کی۔ انہوں نے مسجد سے ملبے کا نقاب یوں اتارا کہ پر شوق نگاہیں پتھرا گئیں۔ 2015ء میں اس آثاریاتی معجزے کی تحریری تفصیل کی تجلیات سے قلعہ گری پر صدیوں سے طاری اندھیرا چھٹ گیا۔
(اردو کالم : https://urducolumn.idaraeurdu.org/article/2475)
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔