تفریح انسانی فطرت ہے۔ انٹرنیٹ سے پہلے کے سفر پر نظر دوڑائیں تو تفریح کے مواقع بتدریج کم ہوتے چلے جاتے ہیں اور آپ افسانے، ناول اور داستان سے ہوتے ہوئے کہانی کے پراسرار مگر سنہرے غار میں داخل ہو جاتے ہیں۔ تمام نثری بلکہ شعری ادب کا سفر کہانی کے اسی پراسرار غار سے شروع ہوتا ہے۔
لوک کہانی کی اپنی کہانی سال ہا سال کی تحقیق کے باوجود آج تک ٹھیک سے بیان نہیں ہو سکی۔ اس لیے یہ بتانا مشکل ہے کہ لوک کہانی کا سفر کب اور کہاں سے شروع ہوا اور ہم تک کن مراحل سے گزر کر پہنچا۔
یہ کہا جاتا ہے کہ انسان کی فرصتوں کا دور کہانی کا دور ہے۔ حجروں اور بیٹھکوں کو کہانیاں اٹھائے رکھتی تھیں۔ یہ بات بجا سہی لیکن دور فرصتوں سے پہلے کا ہو یا بعد کا کہانی سے عبارت ہے۔ وید، صحائف، آسمانی کتب اس پر شاہد ہیں۔ کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں کہانی کا چلن نہ رہا ہو۔البتہ کچھ علاقے ایسے ضرور ہیں جن کے لوک ادب خصوصاً نثری لوک ادب پر کام نہیں ہوا۔ ان میں سے پوٹھوہار ایک ہے۔
پوٹھوہار کبھی علم و ادب کا مرکز تھا۔ دنیا کی پہلی یونیورسٹی کا اعزاز پوٹھوہار کو ملا۔ جس سے پانینی اور چانکیہ جیسے عالی دماغ وابستہ رہے ہیں۔ روشن دماغی کے ساتھ ساتھ روشن ضمیری بھی پوٹھوہار کی پہچان رہی ہے۔ جس کی ایک مثال میاں محمد بخش کی سیف الملوک ہے۔ لیکن اٹھارویں صدی میں عالمی سامراج نے پوٹھوہار پر اپنی حریصانہ نگاہیں گاڑ لیں۔ پہلے گوروں نے عالم گیر جنگوں میں جھونکنے کے لیے پوٹھوہاریوں کو مارشلز کا خطاب دیا۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ لوگوں میں نفرت کی دراڑیں ڈالنے کے لیے پوٹھوہار کے شجاع مگر بھولے باسیوں میں نفرت کا زہر بھرا گیا۔ یوں تقسیم سے پہلے ہی پوٹھوہار میں خونی فسادات ہوئے اور یہاں کے ہندو اور سکھ ہجرت کر گئے۔ چونکہ یہ پوٹھوہار کی پڑھی لکھی آبادی تھی اس لیے تہذیبی امانتیں بھی یہاں سے ہجرت کر گئیں۔
یہ دراڑیں اتنی گہری تھیں کہ تاریخ، جغرافیہ اور رسمِ خط تک جدا ہو گئے۔ پاکستان میں لوک گیتوں پر تو کام ہوا لیکن پوٹھوہاری لوک کہانیوں کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔ اردو اور پوٹھوہاری شاعر علی ارمان کی معرفت ان کہانیوں تک رسائی حاصل کی اور طبیعت کی خرابی کے باوجود انہیں پوٹھوہاری میں یوں منتقل کیا کہ بھولی بسری سنہری دنیاؤں کے در کھول دیے۔
لوک کہانیوں کو سمجھنے کے لئے اس علاقے کے رسم و رواج، تاریخ و ثقافت، سماج اور مذہب کو سمجھنا پڑتا ہے۔ اس لیے سید آلِ عمران نے اس کتاب میں ''پوٹھوہار کہانی'' کے عنوان سے ایک مضمون شامل کیا ہوا ہے۔ جس میں سرزمینِ پوٹھوہار کی سینکڑوں سالوں پر محیط معلوم تاریخ کا احاطہ کیا ہے۔
اس کتاب میں چھ کہانیاں شامل ہیں۔ لالچ، پتال نا شہزادہ، اناراں بادشاہزادی، بلی تے بوہٹی، پوٹھوہار کہانی، ڈھول راجا اور شمس رانی اور راجہ رسالو۔ ان کہانیوں کی بنیاد سچائی اور انسان دوستی ہوتی ہے۔ انسان ازل سے خیر کا متلاشی رہا ہے۔ یہ کہانیاں بھی اعلی اخلاقیات کا درس دیتی ہیں۔
معتبر اشاعتی ادارے رومیل پبلشرز راولپنڈی کی شائع کردہ پوٹھوہاری کہانیاں پڑھ کر خیال سعادت حسن منٹو کے اس قول کی طرف جاتا ہے کہ پوٹھوہاری کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی آم کی گٹھلی چوس رہا ہو۔
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔