میں مارچ سنتالیس کے فسادات کے محرکات پر غور کر رہا تھا۔ بظاہر ان کے خونی چھینٹے مسلم لیگ کے سفید لباس پر پڑتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ برطانیہ عظمٰی کے ایجنٹوں اور ایجنسیوں کوان فسا دات کی بروقت خبر کیوں نہیں ہوئی؟؟؟ انڈین آرمی کو پنڈی سے کہوٹہ آنے میں 5 دن کیوں لگے؟؟؟ خشونت سنگھ نے جناح اور تقسیم ہند کے حوالے سے اپنی کتاب میں بٹوارے کا ذمہ دار سردار پٹیل اور پنڈت نہرو کو ٹھہرایا ہے۔لیگی اور کانگرسی اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ یہ دونوں فریق سامراج کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے ۔۔۔؟ جس نے پہلے انتہائی عیاری سے ہندوستان پر قبضہ کیا اورپھرعوام کو تقسیم کرنے اور حکومت کرنے کا انسانیت کش اصول اپنایا۔ اس گھناونے مقصد کے حصول کے لیے 1872 کی مردم شماری میں مذہب کا خانہ خصوصی طور پر شامل کیا ۔ تقسیم در تقسیم کے اصول پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کو طبقات میں بانٹا۔ کاغذات مال میں مذہب کے ساتھ ذات اور پیشے کا اندارج لازمی ٹھہرایا۔ جس کے اخراج کا سہرا سوا سو سال بعد کہوٹہ کی ایک سیاسی اور سماجی شخصیت غلام ربانی قریشی کے سر بندھا۔
دوسری عالمگیر جنگ کے بعد برطانوی سامراج کا سورج غروب ہونے لگا ۔سامراجی تاجردنیا میں پھیلتی ہوئی اشتراکیت سے خائف تھے۔ فروری 1946 میں جب جہازیوں نے رائل انڈین بحریہ کے جہازوں پر سرخ پرچم لہرائے تو سامراج لرز گیا۔ہندوستان کی آزادی کی رو کوعالمی اشتراکی انقلابی دھارے سے علاحدہ رکھنے کے لیے بوئی گئی مذھبی منافرت کو بھڑکانا بنیادی میکنزم ٹھہرا۔مجوزہ مشرقی پاکستان میں نواکھلی اور مغربی پاکستان میں کہوٹہ کو خصوصی طور پر خونی ڈرامہ سٹیج کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ کیبنٹ مشن کا ڈول ڈالا گیا ۔خلافِ اصول اقتدار گانگرس کے حوالے کیا گیاـــــــــ16 اگست کو راست اقدام ہواـــــــــقانون کے ہاتھ میں پہلی مرتبہ پستول دیکھا گیاـــــــ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیاں خونی فسادات، قتل و غارت گری، نسل کشی، لوٹ مار، خواتین کی بے آبروئی اور کنویں میں چھلانگیں۔ــــ کچھ ماہ بعد سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان کہوٹہ میں ہوبہو سٹیج سجایا گیا۔ـــــ14 اور 15 اگست 1947 کوہندوستان کی حسبِ منشا خونی تقسیم عمل میں لائی گئی جس کے زخم آج تک چاٹے جا رہے ہیں۔
'' جہازیوں کی بغاوت ''سے میرا دھیان کالیاں سہالیاں کے لفٹسٹ اور ْْْغدر پارٹی کے عظیم قائد دادا امیر حیدر کی طرف چلا گیا۔'' جو دریائے جہلم کے بیچ کنڈی والے میں آ کر آباد ہو گیا۔جب جہلم نے اپنا رخ بدلا تو اس کی مٹی پر دادا کے والد کالو خان نے اپنا کوٹھا تعمیر کیا۔ یوں کچی بستی کاہلیاں کی بنیاد پڑی۔بعد میں یہ کاہلیاں سہالیاں بن گیا۔ یہیں دادا امیر حیدرپیدا ہوئے۔ پانچ برس کے تھے کہ یتیم ہو گئے۔ بچپن میں آواز رندھ گئی ۔سوتیلے باپ کا سلوک اچھا نہیں تھا۔ دادا بچپن میں ننگے پاوں کاہلیاں کی ریتلے راستوں پر آواروہ گھومتے رہتے۔ تلخ حالات کے تھپیڑے تو کسی نہ کسی طرح سہہ گئے لیکن ایک مرتبہ ماں نے چماٹ ماری تو برداشت نہ کر سکے اور پشاور چلے گئے اورخچر بس سروس میں مزدوری کرنے لگے۔مشقت نے آواز بھی بحال کردی۔ ماں کی یاد ستائی تو واپس آ گئے۔ ماں نے انہیں کسی طرح آٹھ میل کے فاصلے پر گورنمنٹ پرائمری سکول بیول داخل کرا دیا۔'' (شکریہ: دادا امیر حیدر نے بتایا مرزا حامد بیگ)
میں کچھ دن پہلے کلر بائی پاس، کنوہا، سھوٹ، چوہا خالصہ سے ہوتا کالیاں کے راستے میں بیول کے اس ا سکول جا پہنچا جہاں دادا نے تین کلاسیں پاس کی تھیں۔ یہی ان کی کل تعلیم تھی بقیہ تعلیم انہوں نے بس سٹاپوں، فٹ پاتھوں، بحری گودیوں اور دخانی جہازوں میں حاصل کی جہاں انہوں نے مزدور، ملاح، میرین انجینئر،پائلٹ، ریلوے انجینئر اور کامریڈ تک کے مراحل طے کیے۔
1860 میں تعمیر ہونے والا گورنمنٹ پرائمری سکول بیول اب ہائی کے درجے میں ہے۔معصوم امیر اسکول میں جھاڑو لگانے کے علاوہ اساتذہ کے گھوڑوں کو پانی بھی پلانے ۔ جس کے صلے میں ہیڈ ماسٹر انہیں کھانا دیتے اور جانوروں کے لیے مخصوص ڈیوڑھی میں رات گزارنے کی اجازت تھی۔
میں بیول کی اس ویران مسجدکا کھوج لگانا چاہتا تھا جوکبھی کبھارامیر حیدر کا ٹھکانہ رہتی رہی ہے۔ لیکن بیول بہت بدل گیا ہے۔ اب اس کا شمار پاکستان کے خوشحال ترین موضعات میں ہوتا ہے۔یہاں کسی ویران مسجد کا ملنا محال ہے۔
میں اس راستے کو مشتاق نگاہوں سے دیکھنے لگا جہاں سے ہوتے ہوئے دادا پشاور ، کلکتہ اور آخری بار 1914 میں بمبئی گئے تھے۔جہاں سے انہوں نے کئی براعظموں کا سفر کیا اور 1945 میں گاوں لوٹے۔ میں بیول، سموٹ سے ہوتا ہوا کلر سیداں کے انتہائی شمال میں موضع کالیاں پہنچ گیا جو2004تک کہوٹہ میں شامل تھااورجس کے بارے میں دادا امیر حیدر کہا کرتے تھے کہ خدا اسے بنا کر بھول گیا ہے۔
کالیاں میں قابل دید گورنمنٹ گرلز ہائی سکول اور گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کی عمارات ہیں۔ یہ دونوں سکول دادا نے وقف کیے اور اپنی زندگی میں ہائی کا درجہ دلوا یا۔بوائز ہائی سکول پندرہ کنال پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں سفیدے کے قطار اندر قطار درخت، گراسی گراونڈ، باسکٹ بال کورٹ، کمپیوٹر لیب اور تربیت یافتہ عملہ موجود ہے۔میں سکول کے وسیع حاطہ کے ایک کونے میں دادا کی قبر پر جا پہنچا جس پر حاضری کا عہد میں کئی سال پہلے کر چکا تھا۔
کہوٹہ لٹریری سوسائٹی کے سابق صدر مرحوم سرور سلطان نے کامریڈ عمر جمیل اور محترمہ فرزانہ باری کو دومرتبہ کہوٹہ مدعو کیا۔سرشار سوشلسٹ عمر جمیل مریدانہ اشتیاق سے دادا امیر حیدر سے اپنی ارادت کا گھنٹوں اظہار کرتے رہے۔ یہ بھی طے پایا کہ اگلی مرتبہ کہوٹہ سے"ڈالی" لے کردادا کی قبر تک جائیں گے۔فرینڈز ہوٹل کہوٹہ میں ''عوامی ورکر پارٹی '' کی مقامی تنظیم سازی بھی ہوئی۔ لیکن سرور سلطان صاحب اچانک چل بسےاور سب کچھ ادھورا رہ گیا۔اب کہوٹہ میں ڈاکٹرنجیب نگارش ، سبط سرور سلطان اور صابر علی صدیقی انفردی طور پراپنے اپنے حلقوں میں مارکسی فکر پر بات کرتے رہتے ہیں۔ البتہ ایک اور تنظیم فکر شاہ ولی اللٰہی گزشتہ دس سال سے عبید اللہ سندھی کے سماجی افکارکاابلاغ محتاط لیکن منظم انداز میں کررہی ہے۔ کہوٹہ کی نئی نسل کو مارکسزم سے متعارف کروانے میں ڈاکٹر روش ندیم اور ڈاکٹرارشد معراج کا بھی بہت دخل ہے جوگورنمنٹ ڈگری کالج کہوٹہ میں تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہتے ہیںَ۔
میں دادا کے رشتہ داروں سے ملنا چاہتا تھا لیکن پتا چلا کہ وہ سامنے سہالیاں رہتے ہیں۔ کالیاں اور سہالیاں یوں تو آمنے سامنے ہیں لیکن دونوں میں منگلا جھیل کا گہرا پانی ہے۔ کشتی تک پہنچنے کا راستہ شرمناک حد تک خراب ہے۔
مارکس نے کہا تھا کہ۔۔۔ The proletarians have nothing to lose but their chains.دادا امیر حیدر نے اپنی یاداشتوں کا نام بھی NOTHING TO LOSE رکھا۔یہ یاداشتیں انہوں نے انیس انتالیس میں دورانِ اسیری مرتب کیں انہیں پڑھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ سامراج نے پوٹھوہار کو کتنا پسماندہ رکھا تاکہ جنگ میں جھونکنے کے لیے انسانی ایندھن کی رسد بحال رہے۔اس کا پنجابی ترجمہ ''اک اکّی نی کہانی" کے عنوان سے چھپا۔
انقلابی کہیں کا بھی ہو اس کی زندگی کوئے یار سے سوئے دار کا سفر ہوتی ہے۔۔دادا اپنے اشتراکی نطریات کے باعث عمر بھر ریاستی جبر، قیدو بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں کاٹتے رہے۔ میرٹھ سازش کیس میں 1929 میں ان کے وارانٹ گرفتاری نکلے۔ لیکن بحری راستے سے فرار ہو گئے۔ 1932 میں واپس آئے اورگرفتار ہوگئے۔ 1939 میں دوسال کی قید ہوئی۔قیام پاکسان کے بعد اکثر جیل یاترا ہوتی رہی۔
پوٹھوہار اطراف و جوانب سے الزامات کی زد میں رہتا ہے۔ دادا امیر حیدر کی بے داغ جبیں نے ان الزامات کی شدت کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے۔ کسی عقیدت گزار نے ان کے مزار پر بجا طور پر لکھا ہے
نہیں ہے کوئی بھی داغِ سجدہ تری جبیں پر
ڈٹا رہا عرصہ وفا میں تو زندگی بھر