منگل، 7 دسمبر، 2021

ڈولیاں

0 تبصرے

 


کائنات ایک حیرت کدہ ہے۔ ایک زمانہ انسان ان اسرار کے سامنے سجدہ ریز رہا ہے۔ مسلسل تحقیق اور تجسس نے ان حیرتوں کے پردے چاک کیے اور انسان نے مریخ کو جا لیا۔ جوہری سائنس کے ایک بڑے مرکز کہوٹہ آنے سے قبل میں سوچتا تھا کہ اس کے داخلی دروازے پر جلی حروف میں یہ دعا لکھی ہو گی کہ اے اللہ، مجھے حقیقتِ اشیاء کا علم عطا فرما۔ اس کی ورکشاپوں میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کے لیے کائناتی ورکشاپ کے میکنزم کو سمجھنا آسان ہو گیا ہو گا اور سائنسی کلچر نے ٹھس تصورات کو شہر بدر کر دیا ہو گا۔

کہوٹہ آیا تو میرے شوقِ دید کو دیکھتے ہوئے دوستوں نے شہر سے باہر ایک پہاڑی سلسلہ ”ڈولیاں” دیکھنے کا مشورہ دیا، جہاں گستاخوں کے لیے عبرت کی نشانیاں ہیں۔ روایت کے مطابق دلہے کی ماں نے کوئی منت مانی۔ مراد پوری ہو گئی لیکن منت پوری نہ کرنے پر تمام برات پتھرا گئی۔

ایک دن دو کلومیٹر پر پھیلے اس پراسرارپہاڑی سلسلے کی سیر کو نکل گیا۔ اگر پہاڑی کو ذرا توجہ سے دیکھا جائے تو شیر، ہاتھی، اونٹ، دلہا دلہن وغیرہ کا سرسری گمان گزرتا ہے۔ پہاڑی کے سرے پر ایک ڈولی سی بنی ہوئی ہے جس کی بنا پر یہ علاقہ ڈولیاں کہلاتا ہے۔

کہوٹہ کی پہاڑیوں کا تعلق مری کے پہاڑی سلسلے سے ہے۔ جسے آسانی سے گوگل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی عمر لاکھوں سال پر محیط ہے۔ عمر کے تعین کے لیے کاربن ڈیٹنگ کا سائنسی طریقہ کار موجود ہے۔ ایسے مظاہر دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ کچھ پہاڑیاں اور چٹانیں مختلف شکلوں سے اتنی مشابہہ ہیں کہ انہیں دیکھ کرانسان چونک جاتا ہے۔ بعض نقش و نگار اتنے خوبصورت ہیں کہ نگاہیں مر مٹتی ہیں۔ خوابیدہ حسن کے بعض مظاہر انسان کو کسی اور دنیا میں لے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس ضمن میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ یہی وہ خلا ہے جسے بڑی مہارت سے پر کر دیا گیا ہے۔

میں پہاڑی پر بنے نقوش کو بغور دیکھتا پہاڑی کے وسط میں ”سید نورشاہ غازی بخاری بادشاہ” کے مزار پر پہنچ گیا۔ لوح مزار پر صاحبِ مزار کا سن و سال درج نہیں۔ مزار کے احاطہ میں خدمت گاروں (سائیوں) کی قبریں ہیں۔ مزار سے کچھ فاصلے پر مزار کے 90 سالہ خدمت گار سائیں وادی حسین کا گھر ہے۔ ان کے بقول ”میرے اجداد گلیانہ، گجر خان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈوگرہ راج سے پہلے ہمارے ایک بزرگ کو خواب میں اشارہ ہوا کہ گرنڈا کے ایک ثمر بار درخت کے نیچے ایک ولی دفن ہیں۔ اس طرح پہلے قبر اور پھر مزار بنا۔ جب نذرانے آنے لگے تو علاقے کے ایک سید نے اپنی حقداری کا مقدمہ دائر کر دیا۔ انگریز کلکٹر انکوائری کرنے موقع پر آیا لیکن اس کا گھوڑا مزار سے دو سو گز پہلے ہی رک گیا۔ وہ پیدل مزار کی طرف چل پڑا لیکن مزار کی حدود میں داخل نہ ہو سکا۔ اس نے جوتے اتارے، تب کہیں اس کے قدم اٹھے۔ کلکٹر نے نہ صرف فیصلہ سائیں کرم بخش کے حق میں کیا بلکہ انہیں 13 کنال زمین، تین پشتوں تک مالیہ کی معافی، اعلی مالکانہ حقوق اورنمبرداری بھی دی۔ اس کے علاوہ 12 کنال اراضی مزار کے نام کی۔

٭سب بجا ہے لیکن کیسے پتا چلا کہ صاحبِ مزار کا نام سید نورشاہ غازی بخاری بادشاہ ہے؟

سائیں: یہ ہمارے بزرگوں کے روحانی رابطے سے ہوا۔

٭روحانی رابطے سے ان کے عہد کا پتا نہیں چلا؟

سائیں: اللہ کے اختیار میں ہے وہ جتنا چاہتا ہے بتا دیتا ہے۔

٭کیا اس مزار سے منسوب برات کے پتھرانے کا واقعہ درست ہے

سائیں: غیب کا علم اللہ جانتا ہے لیکن تمام گواہیاں موجود ہیں۔ جنہوں نے اولیاء اللہ کی انکوائریاں اور گستاخیاں کیں وہ پتھرا گئے۔

طویل خاموشی چھا گئی کیونکہ میں پتھرا چکا تھا۔

0 تبصرے


کہوٹہ سنگلاخ لسانی پٹی میں واقع ہونے کے باوجود ان چھوٹے شہروں میں شمار ہونے لگا ہے جہاں سخن کے چراغ کی لو بہت تیز ہے۔ مشاعرے، شعرا کے ساتھ شامیں اور کتابوں کی رونمائی اور پذیرائی کی تقاریب شہر کا معمول ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال اختر عثمان کا شعری مجموعہ چراغ زار کی تقریبِ رونمائی ہے۔

اختر عثمان کا شمار اردو شاعری کی توانا آوازوں میں ہوتا ہے۔ ہمہ جہت اور قادر الکلام کے الفاظ جن شاعروں کو زیبا ہیں ان میں ایک اختر عثمان ہیں۔ جناب اردو، ہندی، فارسی، انگریزی، پنجابی اور پوٹھوہاری زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ اسی کی دھائی کے اواخر میں منظرِ عام پر آنے والے اس شاعر نے اپنے غیر معمولی تنقیدی شعور کے باعث نوجوانی میں ادبی حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ اردو سخن کے شبستان میں پانچ چراغ قلم رو، ہم کلام، کچھ بچا لائے ہیں، ابد تاب، ستارہ ساز کے نام سے روشن کرنے کے بعد اب ان کا نیا شعری مجموعہ چراغ زار منظرِ عام پر آیا رومیل پبلیکیشنز ہاؤس راولپنڈی کی شائع کردہ اس کتاب کی تقریبِ پذیرائی کہوٹہ لٹریری سوسائٹی کے زیرِ اہتمام ہوئی۔

14 دسمبر کی شام 5 بجے کہوٹہ جوڈیشل کمپلیکس کے راجہ انور ہال میں یوسف حسن کی صدارت میں اس تقریب کا آغاز ہوا۔ عبداللہ کمال، رفاقت راضی، جاوید احمد اور منظر نقوی نے چراغ زار پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

عبداللہ کمال نے اخترعثمان کی شاعری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مابعد جدید رویے میں لفظ کےآربیٹریری معنی لیے جاتے ہیں، اختر عثمان کے ہاں وہی لفظ کھنکتی ہوئی مٹی کو قوتِ گویائی عطا کرتے ہیں۔ جواں سال شاعر اور نقاد رفاقت راضی نے کہا کہ اختر عثمان بے پناہ شاعر ہے۔ اس نےغزل، نظم، مرثیہ، مثنوی ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی اور اسے وقار عطا کیا۔ کہوٹہ لٹریری سوسائٹی کے سرپرستِ اعلی جاوید احمد نے اخترعثمان کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مدت پہلے جب وہ اس قسم کے شعر کہہ رہے تھے تو لگتا تھا کہ کسی دن چراغ زار صورت پذیر ہو گی۔

منظر نقوی نے کہا کہ اختر عثمان اردو شاعری کا خوش نما چہرہ ہے۔ کلاسک کے گہرے رچاؤ کے باوجود  اس کا لہجہ جدید ہے۔ شعر کو لفظیات سے زیادہ شاعر کا رویہ اور متن  کی تازگی جدید بناتی ہے۔ صاحبِ شام اخترعثمان نے اس موقع پر جو اظہارِ خیال کیا اس میں  یہ شکوہ بھی موجود تھا کہ کچھ گھر کے چراغ زبان کو بے چراغ کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ آخر ایک تجربے کو تخلیقی تجربہ بننے کے لیے اور کتنا وقت لگے گا؟؟

تقریب کے آخر میں مشاعرہ ہوا۔ جس میں یوسف حسن، اختر عثمان، منظر نقوی، جاوید احمد، رحمان حفیظ، شمشیر حیدر، صغیر انور، عزیز فیصل، جہانگیر عمران، ڈاکٹر سلیم سہیل، ڈاکٹر اسد نقوی، رفاقت راضی، ڈاکٹر ریاض حسین، شیراز بشارت اور ذیشان ساجد نے بھی اپنا کلام سنایا۔ مقامی شعراء میں عبدالرحمن واصف، حسن ظہیر راجہ، قمر عباس، نوید فدا ستی، محسن ظفر ستی، فراز موسم، وقاص امیر اور حمزہ شفیق شامل تھے۔ یہاں پر چراغ زار کے ان اشعار کو درج کیا جاتا ہے جو اس تقریب میں سننے کو ملے۔



تم جو کہتے ہو ،وہ کہنا نہیں آتا مجھ کو ۔۔۔ ہنر حرف برہنہ نہیں آتا مجھ کو

تمہیں زیبا ہے مبارک ہو یہ پوشاک شہی ۔۔۔ تم نے جیسے اسے پہنا نہیں آتا مجھ کو

جوں بگولا میں سرِدشت اڑا پھرتا ہوں ۔۔۔ قیس رہتا رہے، رہنا نہیں آتا مجھ کو

ہم بادلوں کی اوٹ میں یخ بستہ تہہ بہ تہہ ۔۔۔ جیسے رگوں میں برف ہو پیوستہ تہ بہ تہہ

وہ ہاتھ میرے ہاتھوں میں ایسے پھنسے رہے ۔۔۔ جیسے بندھا ہوا گلدستہ تہ بہ تہہ

بے تہہ کوئی کلام کیا  ہے نہ ہو سکا ۔۔۔ میرا اک ایک حرف ہے برجستہ تہہ بہ تہہ

نکل چلو کہ یہ دنیا جمالِ دوست نہیں ۔۔۔ یہاں تو دادِ خدوخال تک نہیں ملتی

کہاں وہ دُور کہ ہم سے ہزارہا تھے یہاں ۔۔۔ کہاں یہ وقت کہ تمثال تک نہیں ملتی

سخن کی تاب نہیں’ بس اشارہ کافی ہے ۔۔۔ پلک پہ ٹھہرا ہوا اک ستارہ کافی ہے

بہانہ ساز سہی’ دل ہے’ کیا کیا جائے ۔۔۔ عجیب وضع کی مشکل ہے’ کیا کیا جائے

دریا کا طلاطم تو بہت دن کی کتھا ہے ۔۔۔ لیکن میرے دل کا بھنور کیوں نہیں جاتا

اختر، تری گفتار ِ فسوں کار میں کیا ہے ۔۔۔ جو بھی ادھر آتا ہے، ادھر کیوں نہیں جاتا

بہت سنبھال کے رکھ اے نگارِ زیست ہمیں ۔۔۔ عجب نہیں کہ ترے کھیلنے میں کھو جائیں

بلا کا شور ہے باہر دِلا ! ابھی چپ رہ ۔۔۔ ہوا کے ساتھ ہیں پتے ، کواڑ کیا کھولیں

چھوڑ بھی اے بنی ٹھنی ! تا بہ کجا یہ جانکی ۔۔۔  میں ہوں نرا شکستنی، توڑ کے مت بنا مجھے

ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ غم کچھ نہیں کہتے ۔۔۔ یوں ہے کہ ترے سامنے ہم کچھ نہیں کہتے

اپنے لیے اک درجہ بنا رکھا ہے ہم نے ۔۔۔ معیار ہے، معیار سے کم کچھ نہیں کہتے

تا عمر ہنر سیکھتے ہیں لوگ جو اختر ۔۔۔ اتنا تو سنبھالے ہوئے نکلا تھا میں گھر سے

اختر ہے ہمیں اذنِ سخن ختم رسل سے ۔۔۔ غیروں سے کبھی ہم نے اجازت نہیں مانگی

چراغ زار میں اختر عثمان کی لفظیات ستاروں کی طرح چمکتی ہیں۔ تراکیب کے دیے لو دینے لگتے ہیں۔ قطار در قطار امید کے چراغ  روشن ہیں۔ چراغ زار خیال کی رفعت اور قادر الکلامی کا مرقع ہے۔ جب اردو کے ان شعراء کی فہرست مرتب ہو گی جن پر اردو زبان ناز کر سکتی ہے تو اس میں اختر عثمان کا نام ضرور ہو گا۔

پیر چناسی ۔ ایک خیالی پیر کا فرضی مزار

0 تبصرے



 مظفر آباد سے چناسی تک چوٹیاں سبز پوشاک پہنے ہوئے ہیں۔ انہیں زیادہ تر یہی رنگ پسند ہے۔ سردیوں میں یہ چوٹیاں جب سفید شال اوڑھتی ہیں تو انہیں دیکھنے کے لیے آنے والے دل یہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ لیکن ساون کا کچا سبزہ، نم ہوائیں اور گنگناتی فضائیں تو دل کے ساتھ جان بھی نکالنے پر تلی بیٹھی ہیں۔

ہم جیسے جیسے بلند ہوتے چلے جاتے ہیں بادل آ، آ کر ہم سے لپٹتے اور کرشن چندر کی یاد دلاتے ہیں۔ کشمیر میں گھٹا نسوانی آنکھ کی طرح برستی ہے۔ برف کے گالے سفید گلاب کی پتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ لوگ دھنک میں سات رنگ دیکھتے ہیں میں نے کشمیر میں اتنے رنگ دیکھے ہیں کہ میرے دو جنموں کے لیے کافی ہیں۔

چناسی ٹاپ سے کچھ پہلے سراں ہے۔ یہاں ایک ریسٹ ہاؤس اور ییراگلائیڈرز پوائنٹ ہے۔ سراں تا ائیر پورٹ ہوا کے دوش پر تیرتے شوخ و شنگ پیراشوٹس مظفر آباد کی فضاؤں کو رنگین بناتے ہیں۔

آخر کار ہم نے پیرچناسی کو جا لیا لیکن منزل پر پہنچ کر سفر کی سرشاری نے اچانک دم توڑ دیا۔ ریپر، شاپر، بوتلیں، کچرا، لید اور بدبو۔۔۔کٹی پھٹی زمین، بے ترتیب تعمیرات، ایک پولیس ریسٹ ہاؤس، ائیر فورس کا احاطہ، ایک رہائشی کمرہ اور ایک مزار۔

پیر چناسی میں ایک چھوٹی سی بازاری ہے۔ جہاں سستی اشیا مہنگے داموں ملتی ہیں۔ جگہ جگہ جنگلی جڑی بوٹیاں اور خوشبودار”نیر”کے پتے بک رہے ہیں۔ سنتے ہیں کہ اس کی دھونی سے نظرِ بد کافور ہو جاتی ہے۔ ہم نے اسے سونگھا تو طبیعت پھر سے سرشار ہو گئی۔

پیر چناسی ان جگہوں میں سے ایک ہے جہاں زمین آسمان سے ملتی ہے۔ ساڑھے نو ہزار فٹ کی بلندی پر انسان اپنے پر پسارنے لگتا ہے، ہوائیں اٹکھیلیاں کرتی ہیں اور بادل جسم و جاں سے آ کر ٹکراتے ہیں۔

اگر آپ تاروں میں رات گزارنا چاہتے ہیں تو اپنا ٹینٹ، چمچہ، کڑچھہ اور دیگچہ ساتھ لائیں۔ کیوں کہ یہاں صرف ملنگوں کے لیے رہائش میسر ہے۔ رختِ سفر میں ٹوتھ برش ضرور باندھیں کہ یہاں مسواک کے لیے پیڑ تو درکنار جھاڑی بھی نہیں ملتی۔

جانے چناسی کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ چناسی سے دھیان نورجہان کے چنار سے ہوتا ہوا سوہنی کے چناب میں تیرنے لگتا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ اس سے مراد “چن”کی آمد یا آس ہے۔ چناسی سے ملتے جلتے ناموں میں سوراسی، بٹراسی اور الیاسی ہیں جو مری، مانسہرہ اور ایبٹ آباد میں ہیں۔

لفظ پیر کا کشمیر سے پرانا تعلق ہے۔ اسی لیے اکثر چوٹیوں کے ناموں کے ساتھ لفظ پیر لگا ہوا ہے۔ جیسے نیزہ پیر، سوہارا پیر، جسہ پیر، تولی پیر، حاجی پیر، پنچ پیر ۔۔۔ پیر بڈھیسر اور پیر چناسی وغیرہ۔ ٹریول ان مغل ایمپائر میں برنئیر اور ارضیاتِ جموں کشمیر میں فریڈرک ڈریو نے لکھا ہے کہ کشمیر میں لفظ پیر پاس یا درے کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔

مزار کے باہر پمنفلٹس رکھے اور بینرز لگے ہوئے ہیں کہ ستمبر 2018 کے دوسرے ہفتے میں شہنشاہء کوہسار حضرت سید سخی امام نور حسینی المعروف پیر سید شاہ حسین بخاری، پیر چناسی شریف کا 375 واں سالانہ عرس ہے۔ جس میں غسل روضہ مبارک سے لے کر سیرت النبی کانفرنس کا شیڈول دیا گیا ہے۔

چناسی کی فضاؤں میں سیاہ و سرخ علم اور سبز جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ نارسائوں کی مرادوں کی دھجیاں جگہ جگہ بندھی ہوئی ہیں۔ مزار کے احاطے کے ہر پتھر پر رنگ پھیردیا گیا ہے۔ گنبد کی بالائی سطح پر گہرے رنگوں نے مزار کو جاذب نظر بنا دیا ہے۔ اندر سے مزار کی تزئین و آرائش بڑے اہتمام سے کی گئی ہے۔ دیواروں پر شیشے کے کام کی نفاست اور رنگینی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

ایک عالی شان گنبد کے نیچے قبر ہے۔ لوحِ مزار موجود نہیں ہے۔ عوام مناجات میں مصروف ہیں۔ عقیدت اپنا ماتھا ٹیکے ہوئے ہے۔ سر والٹر آر لارنس (ویلی آف کشمیر-1895) کے مطابق ویلی میں پیر پرستی عام ہے۔ پیر ہر مرض کا مداوا ہے۔ یہ عام لوگ کے مال پر پلتا ہے۔ مردہ پیر زندہ پیر سے زیادہ بااختیار سمجھا جاتا ہے۔ تکریم کے تمام در مزار سے کھلتے ہیں۔ لوگ مزار کی گرد چہرے اور گلے پر ملتے ہیں۔

مزار کے اندر ایک بورڈ پر حضرت آدم سے لے کر پیر چناسی تک حق پرستی کا طویل احوال درج ہے۔ بیان کی طوالت اور بے ربطی نے صاحبِ مزار کو پراسرار بنا دیا ہے۔ ہم اس ست رنگی قلمی کاوش میں حق تلاش کرتے رہ گئے اور معمّہ کے حل کے لیے سجادہ نشین سید افتخار حسین شاہ بخاری سے رجوع کیا۔

٭۔۔۔ یہ مزار کب بنا؟

سجادہ نشین ۔ ڈیڑھ سو سال پہلے۔ بابا شیر شاہ بخاری کراچی نے بنوایا تھا۔ پہلے کچی قبر تھی۔ پھر چار دیواری کھینچی گئی۔ پہلے عام سا مزار تھا اب باقاعدہ تعمیر ہوئی ہے۔

٭۔۔۔ جگہ جگہ تین سو پچھترواں عرس لکھا ہے جب کہ آپ کے بقول مزار بنے ڈیڑھ سو سال ہوا ہے؟

سجادہ نشین ۔ اصل میں سرکار تین سو پچھتر سال پہلے آئے تھے لیکن آپ کا ظہور ڈیڑھ سو سال پہلے ہوا تھا۔

٭۔۔۔ ظہور۔۔۔۔۔۔۔۔!!! کیا مطلب؟

سجادہ نشین ۔ ایک چوھدری کی بھینسیں یہاں بیٹھ گئیں۔ ان میں ایک سنڈا بھی تھا۔ یہ سات دن بیٹھی رہی۔ چوھدری کو خواب میں آیا کہ شیر شاہ سے کہو کہ یہ سنڈا ذبح کرے تو یہ بھینسیں اٹھ جائیں گی۔ ایسا ہی ہوا۔

٭۔۔۔ اندر جو تاریخ لکھی ہوئی ہے اس میں ایسی کوئی بات درج نہیں ہے؟

سجادہ نشین ۔ ہاں۔۔۔! لیکن تاریخِ اولیا، تاریخ کشمیر اور بے شمار کتابوں میں ان کے بارے میں لکھا ہوا ہے۔ ایک بدھ سیاح تسانگ جو دو دریاؤں کے سنگم سے براستہ پیر چناسی سری نگر گیا نے اپنے سفر نامے میں سرکار کا پورا تذکرہ کیا ہے اور اس نے سرکار کا نام سخی امام نور حسینی اچ بلوٹ المعروف شاہ حسین بخاری لکھا ہے۔

٭۔۔۔ ہیون تسانگ ایک ہزار تین سو ستاسی سال پہلے مظفرآباد سے گزرا تھا جب کہ پیر چناسی کا یہ تین سو پچھترواں عرس ہے؟

سجادہ نشین ۔ اصل میں زلزلے سے میری یادداشت چلی گئی تھی۔ اب مجھے ٹھیک سے کچھ یاد نہیں ہے۔

کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تحریری تاریخ موجود ہے۔ کلھن سے فوق تک کشمیر کو درجنوں ایسے سیاح، مورخ اور محقق ملے جنہوں نے کشمیر کی تاریخ کو افسانہ بننے نہیں دیا۔ انہی میں سے ایک سٹین تھا۔ جس نے دی اینشینٹ جیوگرافی آف کشمیر میں لکھا ہے کہ تقریباً تمام کشمیری دروں میں پتھروں کے ڈھیر ملتے ہیں جو خیالی پیروں کی فرضی قبروں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ کوئی سیدھا سادا مسلمان جب یہاں سے گزرتا ہے تو ایک آدھ پتھر کا اضافہ کر دیتا ہے۔ شاید ایسا ہی کوئی معاملہ یہاں تھا جسے ہماری چشم پوشی نے شہنشاہء کوہسار بنا دیا ہے۔ 

قلعہ گری اڈی گرام (سوات) میں ہے

0 تبصرے


سر بلند کوہساروں، سرسبز وادیوں، سرمست دریاؤں اور ثمر بار پیڑوں کی سرزمین سوات سیاحوں کی جنت اور پاکستان کا سوئٹزرلینڈ کہلاتی ہے۔ چشموں سے امڈتا اور گلئشیرز سے پگھلتا سفید اور چمکیلا آبِ سوات مستقل سفر میں رہتا ہے۔ اس کی مٹھاس نے مقامی میوؤں اور مکینوں میں شیریناں بھر دی ہیں۔ سواتیوں کے دل کے حجرے آنے والوں کے لیے صدیوں سے کھلے ہوئے ہیں۔

دریا کے پاٹ کے پھیلاؤ نے اوڈی گرام پر سکوت طاری کیا ہوا ہے۔ یہاں وہ حیرت افزا خاموشی ہے کہ گیان دھیان کے بنا آتمائیں شانت اور شریر مکت ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے یہ ہندھتوا اور بدھستوا کا پراچین استھان رہا ہے۔ سواستو گویا سرسوتی رواں ہے۔ ‘ایلم’ کی چوٹی پر رام چندر جی بن باس گزار رہے ہیں۔ ‘جوگیانو سر’ پر ان کا تخت بچھا ہوا ہے۔ بدھا کا پدما سمبھاوا (دوسرا جنم) ہوتا ہے۔ سواستو میں کنول تیرتے ہیں۔ فضائیں جاتک کتھائوں سے مشکبار ہوتی ہیں۔ ڈبل ڈوم وہار اور اسٹوپاز بنتے ہیں۔ اشوکا اور کشان ‘اوڈی’ کو زعفران زار بنا دیتے ہیں۔ اس کے شوخ رنگوں کی شہرت جب ہندوکش کراس کرتی ہے تو شکاری اوڈی کا رخ کرتے ہیں۔ مقامی لوگ ان سے بچنے کے لیے پہاڑ کے دامن میں بستی بساتے ہیں جس کی چوٹی (گری) پر ‘راجہ گیرا’ کا محل ہے۔

اوڈی گرام کے مشرق میں دو کلومیٹر کے فاصلے پر پانچ سو فٹ کی ٹریکنگ ہمیں راجہ گیرا کے محل کے کھنڈرات تک لے گئی۔ جہاں میں ہی نہیں میرے ہمسفر وسیم اختر مغل، عمران یونس اور ثاقب لطیف بھی بے اختیار پکار اٹھے کہ یہی وہ قلعہ گری ہے جسے ہم کری شہر، گڑی ٹیکسلا اور شہباز گڑھی میں تلاش کرتے رہے۔ اسی کے بارے میں البیرونی  نے کتاب الہند مین لکھا تھا کہ ‘ہم نے قلعہ راجکری اور قلعہ لاہور سے خوبصورت قلعے نہیں دیکھے۔’ اور شاید یہ بھی البیرونی نے یہیں کہا ہو کہ ‘پرشوکت ہندو شاہیہ بےنشان ہو گئی لیکن اس کے شرفا میں راست روی کی خواہش اور جوش کبھی کم نہیں ہوا’۔

سامنے پہاڑ کے دامن میں دریائے سوات رواں ہے۔ دریا اور گری کے درمیان مرکزی سڑک ہے۔ جس پر حخامنشی، یونانی، کشانی، چینی، تھائی، بھوٹانی، جاپانی اور غزنوی گزر رہے ہیں۔۔۔ دسمبر 1040ء کے اواخر میں سلطان مسعود اور بیگم سارا خاتون کو گرفتار کر کے لایا جاتا ہے۔ 17 جنوری 1041ء کو بھتیجا احمد آتا ہے اور45 سالہ چچا کی گردن اتار دیتا ہے۔ مودود ابن مسعود اپنے چچا محمد کو اور بھتیجے احمد کو مار دیتا ہے اور سلطان مسعود غزنوی کی میت گری سے غزنی منگواتا ہے۔

عبرت کی اس جا پر سیاحوں کا تماشا لگا ہوا ہے۔ سلفیاں بن رہی ہیں۔ ویڈیو گرافی ہو رہی ہے۔ کسی کو خبر نہیں کہ یہی وہ راجکری ہے جس سے زیادہ خوبصورت قلعہ البیرونی نے نہیں دیکھا تھا، یہی وہ گیری ہے جہاں بیہقی کے بقول غزنوی اشراف کو سزا یا نگرانی کے دنوں میں رکھا جاتا تھا۔ یہی وہ کیری اور کوہ پایہ ہے جسے چنگیز خان 1221ء میں فتح کرتا اور تین ماہ اس پر قیام کرتا ہے۔ یہ وہ Rayik’r ہے جس پر تیرہویں صدی کے تبتی زائر ‘ارجن پا’  کے پاؤں پڑتے ہیں۔ یہ وہ ‘رائی سر’ ہے جسے ستارہویں صدی میں ایک بھوٹانی زائر ‘تگ سن راس پا’ سر کرتا ہے۔ یہی وہ گڑھی ہے جسے آقائے حبیبی نے نامعلوم لکھا ہے اور ایڈمنڈ بوس ورتھ شہباز گڑھی اور کپور  دا گڑھی بتاتا ہے۔ یہی وہ گڑی ہے جسے سرائے روات کا معلوماتی بورڈ ٹیکسلا میں بتاتا ہے۔

گری مسجد ۔ ایک آثاریاتی معجزہ

0 تبصرے


اوڈی کے گھنے دامن کوہ میں بدھ بھکشو گیان میں مگن ہیں۔ دکھ سے نجات کے لیے ان کا دھیان نروان کی پرفریب وادیوں میں نکلا ہوا ہے۔ یہیں ایک  وہار میں بدھم شرنم گچھامی، دھرمم شرنم گچھامی، سنگم شرنم گچھامی کی تکرار نے طلسم باندھا ہوا ہے۔ ادھر جھاڑ پھونک ہو رہی ہے، ادھر کالے دھاگے باندھے جا رہے ہیں۔ آج منگل وار ہے بھکشوؤں سے آشرواد لینے کے لیے اوڈی گرامیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں ۔۔۔ اچانک گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیتی ہیں، سموں کا شور اٹھتا ہے، نعرے بلند ہوتے ہیں، تلواریں ٹکراتی ہیں، اینٹ سے اینٹ بجتی ہے اور ‘اوڈی’ کا یہ دامن کوہ بھکشوؤں کا مرگھٹ بن جاتا ہے۔ وہار مسجد بنتی ہے۔ مجسمہ ساز محراب و ممبر تراشتے ہیں، امام مہامنت کا استھان سنبھالتا ہے، راستی کے ہشت اصول مٹا کر شش کلمات نقش کیے جاتے ہیں۔ بھکشوؤں کی کھولیاں حجروں میں بدلتی ہیں، گھنٹیوں کی جگہ اللہ اکبر کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔ ‘راجہ اشوکا’ سے شروع ہونے والا بدھ اقتدار اور ترک – کابل شاہیہ پیکار ‘راجہ گیرا’ پر تمام ہوتی ہے۔ اور یوں سینا وارمہ، اندرا ہوتی اور راجہ گیرا کے اُوڈی پر غزنی کا محمود سلطانی کرنے لگتا ہے۔

قلعوں کو سر کرنے کی تاریخ غداروں، دراڑوں، جھنڈوں اور پانی کی بندشوں سے عبارت ہے۔ صرف ‘لو کوٹ’ نے غزنوی عزم عاجز نہیں کیا، قلعہ گری بھی غزنویوں کے لیے چیلنج بن گیا۔ رہی سہی کسر کہانیوں نے نکال دی۔ پانچ سو فٹ اوپر پانی پہنچایا گیا، مخبروں کی اطلاع پر سپلائی لائن کاٹی گئی، راج کماری سے خوشحال کا معاشقے کا تڑکا لگایا گیا۔ غازی بابا  کا بے سر لاشہ اوڈی گرامیوں کی گردنیں اتارتا ہوا شہید ہوا۔ کوہستان گیرا کے دامن میں ‘غازی بابا خوشحال’ کے مزار پر اب بھی میلہ لگا ہوا ہے۔

غزنوی کی آنکھیں بند ہونے لگیں تو اس نے اپنی آنکھ کے تارے محمد غزنوی کو ولی عہد بنا دیا۔ مسعود غزنوی نے اس کی آنکھیں نکال کر نظر بند کر دیا۔ یہ کج رو مسعود خوش ذوق بھی تھا۔ نوجوانی میں اس کی خواب گاہ کی دیواروں پر’کاما سوترا’ کے آسن نقش تھے۔ اس کے جڑاؤ تخت پر طلائی زنجیروں سے ستر من سونے کا تاج  لٹک رہا تھا۔ اوڈی کی مسجد میں ستونوں کی قطاریں، پرت دار سلیں اور نفیس جالیاں اس کے ذوق کی آئینہ دار ہیں۔

گیارہویں صدی میں خراسان کو مرکزیت حاصل تھی۔ مسعود  اسے زیر کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ یہ دیرینہ خواب سلجوقیوں نے بکھیرا تو اسے جان و مال کے لالے پڑ گئے۔ اس نے راتوں رات خزانہ سمیٹا اور غزنی سے لاہور کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ راستے میں لشکریوں نے خزانہ لوٹ لیا۔ مسعود نے رباط مارگلہ میں پناہ لی۔ جہاں سے اسے قلعہ گری میں قید اور پھر قتل کر دیا گیا۔ لیکن مورخین گری کے نام اور مقام پر اتفاق نہ کر سکے۔ صدیاں گزر گئیں۔ 1927ء میں ایریل سٹین نے راجہ گیرا کھنڈرات کا سراغ لگایا۔ 1984ء میں اطالوی ماہرین آثاریات نے ایک کتبہ اور پھر مسجد دریافت کی۔ انہوں نے مسجد سے ملبے کا نقاب یوں اتارا کہ پر شوق نگاہیں پتھرا گئیں۔ 2015ء میں اس آثاریاتی معجزے کی تحریری تفصیل کی تجلیات سے قلعہ گری پر صدیوں سے طاری اندھیرا چھٹ گیا۔

(اردو کالم : https://urducolumn.idaraeurdu.org/article/2475)


سرائے روات سے چمٹی خرافات کی چمگادڑیں

0 تبصرے



آرکیالوجی اسرار کے در کھولتی، کھنڈرات سے نوادرات نکالتی ور خاموشیوں کو زبان دیتی ہے۔ یہ بستیوں کی بربادی کا احوال ہی بیان نہیں کرتی بلکہ ان کے تہذیبی خط و خال بھی ابھارتی ہے۔ یہ اندھی آنکھوں میں سرمچو پھیرنے کی بجائے کھلی آنکھوں سے کھرپا چلانے پر یقین رکھتی ہے۔

اوڈیگرام کے تازہ آثاریاتی انکشافات سے تاریخ کی زنجیر کی کچھ کڑیاں یوں بہم ہوئی ہیں کہ جھنکار سوات سے روات تک سنائی دے رہی ہے۔ قلعہ گری کے بارے میں حتمی شواہد سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مورخین ٹیکسلا کی جس بدھ خانقاہ ‘کو قلعہ گری سمجھتے رہے وہ غزنوی مورخین کا ‘رباط مارگلا ہے۔

مسعود غزنوی کو رباط مارگلا سے جس قلعہ گری منتقل کیا گیا اس کا محل وقوع مورخین کے لیے معمہ بنا رہا۔ اتفاق سے مارگلا کی آغوش میں واقع گری کی ایک عمارت کی دبیز دیواروں سے یہ خیال عام ہو گیا کہ یہی وہ قلعہ گری ہے جہاں مسعود قید اور قتل کیا گیا۔

ٹیکسلا سے راول پنڈی کے قدیم راستے میں واقع اس بدھ خانقاہ کے قریب مدرسہ، مسجد، زیارت، چشمہ اور گھنی چھاؤں سے اس کے رباط کے طور پر استعمال کے امکانات بڑھا رہے ہیں۔ جان مارشل کو یہاں سے ملنے والی باقیات (شکنجے، قبضے، سوئیاں، سرمچو، شیشے اور ہاتھی دانت کی چوڑیاں، سنگی موتی اور تانبے کی انگوٹھیاں وغیرہ) بھی اس کے قلعہ ہونے کی تردید کر رہی ہیں۔

ٹیکسلا کے زعفرانی نقشے میں سبز عسکری نشان کے خمار نے رباط کو مارگلا سے روات دھکیل دیا۔ جہاں لکیر کی فقیروں نے لفظ روات کو رباط اور تغلق مثال سرائے کو غزنویوں سے منسوب کر دیا۔

دو سال سے روات کے اس سرائے کی بحالی کا کام جاری ہے۔  کوٹھڑیاں قابضین اور مزار چمگادڑوں سے چھڑا لیا گیا ہے۔ لیکن اگر اس عمارت کی تاریخ سے چمٹی خرافات کی چمگادڑیں نہ ہٹائی گئیں تو یہ کام ادھورا رہ جائے گا۔

مرکزی محکمہ آثار قدیمہ و عجائب گھر انتظامیہ تحقیق کے ساحل سے چنی یہ سیپیاں پرکھنے کے لیے ہتھیلی پر رکھ لے تو اس بحر کے شناور موتیوں کی مالائیں اس کے گلے میں ڈال دیں گے۔

(اردو کالم : https://urducolumn.idaraeurdu.org/article/2512)


اتوار، 1 نومبر، 2020

قلعہ گری ٹیکسلا میں نہیں ہے

0 تبصرے

لفظ 'گری' سماعت کی گلیوں سے گزرتا ہے تو دہن اخروٹ اور بادام کے ذائقوں سے تر ہو جاتا ہے۔ ہم  گری کو گڑھی کی رواں شکل سمجھتے رہے لیکن گری چیزے دیگری نکلا۔ رگ وید میں سرسوتی کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ گری سے ساگر کی اور جاتا ہے۔ اس لیے ٹیکسلا سے سری لنکا تک پہاڑی چوٹیوں کے نام میں گری بطور لاحقہ راج کرتا نظر آتا ہے۔ ابوالفضل بیہقی سے ابوالفضل علامی تک مختلف مورخین کے ہاں اس جگہ کا نام گری، کری، کبری، گیری، کیری، کبیری، کیکی وغیرہ ملتا ہے۔ اہلِ ٹسکلا اسے گِڑی کہتے ہیں۔

گری مارگلہ کے دامن میں ہے۔ مارگلہ کے ایک طرف بدھ مت کا تاثر غالب ہے اور دوسری طرف اسلام کی چھاپ مقابلتاً نئی ہے۔ اسلام آباد بننے سے  بہت پہلے مارگلہ میں سبز چولوں کی بہار آ چکی تھی۔ شاہ اللہ دتا، گولڑہ اور بری امام کی راہیں گری سے گزرتی تھیں۔ زائر، تاجر اور مسافر گری کے چشموں کا پانی پیتے، بن فقیراں میں نہاتے، حنجیرہ (شاہ اللہ دتا) کی غاروں میں جا قیام کرتے تھے۔

ہم ٹیکسلا میوزیم کی گیلریوں میں گری سے ملنے والے نوادرات تلاشتے، آشوکا کے دھرما راجیکا کا طواف کرتے، شاہ ڈھیری سے ہوتے، ڈھوک خرم پراچہ سے گزرتے، آہستہ خرام بھکشوؤں کی طرح برساتی کس کے پتھروں کے سنگ سنگ مارگلہ کی آغوش میں گوشہ گیروں کی جنت گری جا پہنچے۔

گری دو حصوں (گری ون اور گری ٹو) پر مشتمل ہے۔ تقریباً چار ' لی ' پر پھیلے گری کمپلیکس کے درمیان ایک تالاب، چھوٹی مسجد، پاک دامن بیبیوں کی زیارت، پرانا برگد اور پرشور چشمہ ہے۔ ڈیڑھ سو سے زائد سنگی زینے پہاڑی کی ہموار چوٹی پر بدھی فیض کے قدیم سر چشمے کی باقیات تک پہنچا دیتے ہیں۔

مارگلہ کے اس سرسبز دامن  کو کشانوں نے گیروی رنگوں سے بھر دیا۔ جہاں پپہیوں کا شور تھا وہاں بدھ منتروں کی ہنہناہٹ سنائی دینے لگی۔ سردیوں میں برفانی علاقوں کے بھکشوؤں کی آمد سے گری کی رونقیں اور بڑھ جاتیں۔ بہار کے رنگ اور ساون کی گھٹائیں جب گری کا گھیراؤ کرتیں تو بھکشوؤں کے دل کے کنول کھل اٹھتے۔

ٹیکسلا میں دوسری صدی عیسوی تک 'ایشیا کے نور' کی چمک میں یونانی دیوتاؤں کے دمک بھی شامل ہو چکی تھی۔ کشان مہایان کا عہد ہے۔ ان ترقی پسند بھکشوؤں کا عقیدہ تھا کہ صرف مہایاں (بڑی سواری) ہی دکھی انسانیت کو سکون آشنا کر سکتی ہے۔

کشانوں کے بعد وسط ایشیا سے اٹھنے والی کالی آندھی گندھارا پر بجلی بن کر گری۔ مہر کلا بدھوں پر قہر بن کر ٹوٹا۔ سیاہ طینت ہنوں نے سرسبز مارگلہ کو بھکشوؤں کے خون سے سرخ  کر دیا۔ جشنِ فتح میں بھکشوؤں کی کھوپڑیوں میں شرابیں پی گئیں۔ کسی دیوتا نے آواز سنی، نہ کوئی منتر کام آیا۔ راج ترنگنی کے مطابق بدھوں کے غارت گری میں برہمن مہر کلا کے معاون تھے۔ 

اس کے بعد گری تو کیا خود ٹیکسلا کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ شہر خاک کی چادر تان کر سو گیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان خاکی ڈھیریوں میں کیا چھپا ہے۔ سینہ بہ سینہ یہ روایت ضرور سفر کرتی رہی کہ یہ شاہوں کی ڈھیریاں ہیں۔ جنہیں 1913ء میں جان مارشل کے دستِ مسیحا نے پھر زندہ کر دیا۔ گائیڈ ٹو ٹیکسلا (کیمبرج ایڈیشن) میں انہوں نے گری کے  عنوان سے مفصل مضمون لکھا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بیرونی یلغار کی صورت میں دھرما راجیکا اور دیگر قریبی خانقاہوں کے بھکشوؤں کی یہ جائے پناہ تھی۔ اس کی دور افتادگی بتاتی ہے کہ بھلے یہ جتنا بھی عرصہ آباد رہا ہو اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔

یہ بات زمانے سے مشہور چلی آرہی ہے کہ یہ بدھ خانقاہ  بعد میں غزنوی قلعہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی اور بت شکن کی آل کے زوال کی داستان کا دیباچہ بھی یہیں رقم ہوا۔ لیکن جان مارشل کی 'راہنمائے ٹیکسلا' اس کی واحد شناخت بدھی خانقاہ کے طور پر کرتی ہے۔ ڈاکٹر اشرف کا آثاریاتی سروے اور ایک تازہ آثاریاتی رپورٹ بھی جان مارشل کی تائید کر رہی ہے۔ لیکن بات چونکہ آلِ بت شکن کی ہے، جس کی تصدیق ڈاکٹر احمد حسن دانی نے کی ہوئی ہے، اس لیے اسلام آباد کے داخلی دروازوں پر واقع گڑی اور روات کے نام نہاد قلعوں کی تاریخ کی درستی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔