ہفتہ، 25 دسمبر، 2021

کتاب پرست

0 تبصرے


ہم تاریخ کے دشت میں دیوانہ وار داخل تو ہو گئے لیکن جلد ہی یہ احساس بھی ہو گیا کہ اس دشتِ پرخار کے ظلمات کوعبور کرنے کے لیے صرف شوقِ سفر کافی نہیں، خضرِ راہ کی بھی ضرورت ہے اور یہی تلاش ہمیں بوئی گاڑ، ٹیکسلا کے خضر صورت راجہ نور محمد نظامی تک لے گئی۔

عرضِ مطلب کیا تو متعلقہ کتب کے مصنفین، سن اشاعت، پبلشرز اور اندازاً صفحہ نمبر تک بتا دیے۔ ایک منٹ میں کتابیں نکل آئیں۔ متعلقہ صفحات کی تصاویر بنیں۔ پرتکلف ظہرانے کے بعد راجہ صاحب نے بڑی محبت سے لگائے گئے باغِ علم کی سیر کرائی تو دل شاد ہو گیا۔

کتب خانہ راجہ نور محمد نظامی اپنے نادر علمی ذخیرے کے باعث اپنی مثال آپ ہے۔ محقق شوقِ تحقیق میں کھنچے چلے آتے ہیں ۔ نادر و نایاب کتابوں کی رنگا رنگی کتاب کے متوالوں کے دامنِ دل کو کھینچتی ہے۔ گھر میں ہونے کے باوجود کتب خانے کے دروازے محققین کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ علم دوستی کی ایسی مثالیں اس دور میں نایاب ہیں۔

تاریخ و تذکرہ، مذہب، تصوف، آثار قدیمہ، انشا، لغات، مکاتیب، اقوام و قبائل وغیرہ پر یہاں کتابوں کی تعداد تیرہ ہزار ہے۔ جن میں بڑی تعداد تاریخ و تذکرہ پر ہے۔ بہ قول راجہ نور محمد نظامی پاکستان میں اس موضوع پر یہ بہترین کلکشن ہے۔

کتب خانے میں زیادہ تر کتابیں اردو میں ہیں۔ اس کے علاوہ عربی، فارسی، پنجابی، پشتو اور سندھی میں کتب موجود ہیں۔ اس میں کچھ نادر و نایاب نسخے شامل ہیں۔ سات سو سالہ پرانی کتابوں سے لے کر جدید کتب کا یہ شاندار ذخیرہ بہت بہترین حالت میں موجود ہے۔ ان میں ہند کی تیئس سو سالہ تاریخ، پاکستان کے شہروں کی تاریخ، ساڑھے تین سو سے زائد خطی نسخے، تین ہزار سے زائد مجلے شامل ہیں۔ ان میں ہزارہ کے لکھاریوں کی پانچ سو اور اٹک کے لکھاریوں کی ایک ہزار سے زائد کتب ہیں۔ ان میں سب سے پرانی کتاب ڈیڑھ سو سال پہلے کی ہے۔ نظامی صاحب کے بقول یہاں پربعض ایسے مخطوطات بھی موجود ہیں جو اور کہیں نہیں پائے جاتے۔

وقت نے کتاب سے انسان کا تعلق کو کمزور بنا دیا ہے۔ اب اس کی ضرورت انہی لوگوں کو رہ گئی ہے جو اپنی ڈگری کے لیے کتابیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ خالص کتاب کے لیے سرگرداں دیوانوں کی فہرست مرتب کی جائے تو راجہ نور محمد نظامی کا نام سرِ فہرست ناموں میں ہو گا۔ آپ پندرہ سال کی عمر سے یہ شوق پالے ہوئے ہیں۔ چالیس سال ہو چکے ہیں۔ کتاب ان کا عشق ہے۔ جان مال وقت ـــــ ہر چیز کتاب کے لیے وقف ہے۔ کسی خاص کتاب کی بھنک پڑ جائے تو رکاوٹیں اور فاصلے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ کراچی، کوئٹہ، گلگت تک کا سفر صرف کتاب کے لیے کر چکے ہیں۔ ہندوستان، افغانستان، ترکی تک سے مواد منگوایا ہے۔ کتاب مدینہ، بہار، کراچی اور دوسرے شہروں سے کشاں کشاں سفر کرتی بوئی گھاڑ پہنچ جاتی ہے۔ کتابوں کی حفاظت کے لیے انہیں حرکت میں رکھتے ہیں۔ صفائی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ ساون میں دھوپ لگائی جاتی ہے۔ حفاظتی ادویات کا چھڑکاؤ ہوتا ہے۔

کتاب کے حوالے سے نظامی صاحب کو کچھ تلخ تجربات سے بھی گزرنا پڑا۔ ان کے بقول ان کی پندرہ سو کتابیں لوگ پڑھنے کے لیے مانگ کر لے گئے اور واپس نہیں ملیں۔ ان میں معززین شامل ہیں۔ اس لیے کتاب یہیں دیکھی جا سکتی ہے۔ وڈیو بنا لیں یا تصویر اتار لیں۔ لیکن کتاب باہر نہیں جا سکتی۔
نظامی صاحب کتاب کے مسقبل کے حوالے سے پر امید ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح ڈھائی ہزار سالہ پرانے خطی نسخے موجود ہیں اسی طرح صدیوں بعد بھی کتاب موجود رہے گی۔ انسان ختم ہو جاتا ہے لیکن کتاب ختم نہیں ہو سکتی۔

کتاب کے علاوہ آپ آثارِ قدیمہ کے بھی شائق اور پارکھ ہیں۔ آپ کے کتب خانے میں ایک دنیا زمین پر آباد ہے۔ ان میں پرانے سکے، نوٹ، ڈاک ٹکٹ، قدیم تحریریں، مکتوبات، برتن، گھڑیاں، اسلحہ تلواریں، خنجر، بھالے، انگشتریاں شامل ہیں۔ یہاں پتھراورہڈی کے بنے ہوئے اوزار بھی موجود ہیں۔ یہاں آج سے پانچ ہزار سال پہلے تک کے سکے ہیں۔ ایک سکہ چار ہزار سالہ پرانا ہے جو ہڑپہ سے ملا ہے۔ یہاں کچھ کرڑوں سالہ پرانے فوسلز ہیں۔

مٹی سے محبت دیکھیے کہ آپ علاقے کا چپہ چپہ چھان اور کونہ کونہ کھوج چکے ہیں۔۔ کوئی نالہ، خرابا، باولی، ڈھیری، ایسی نہیں ہے جو آپ سے رہ گئی ہو۔ آپ کے بقول ٹیکسلا سے ہری پور کے درمیان قدیم آثار کی کثرت ہے۔

آپ ٹیکسلا کو تاریخ کے ماتھے کا جھومر کہتے ہیں۔ چھٹی صدی ق م میں یہ ایران کے ماتحت تھا۔ 327 قبل مسیح میں سکندر یہاں آیا۔ موریا، باختری، کشان اور ساسانیوں نے یہاں حکومتیں کیں۔ یہ گندھارا تہذیب کے اہم مراکز میں سے ایک ہے۔ یونانیوں نے یہاں ایک نیا شہر سِرکپ آباد کیا ۔ جس کی پتھریلی باقیات اس کے تعمیراتی نظم و ضبط کی گواہ ہیں۔ زیادہ ترباقیات پہلی سے پانچویں صدی عیسوی کی ہیں۔ کتب خانہ نور محمد نظامی میں ٹیکسلا کی تاریخ پر بے شمار مواد اور کم از کم پندرہ کتابیں موجود ہیں۔

سٹوپوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ بنیادی طور پر بدھ راہبوں اور رشیوں کے مزارات ہیں جو ان کی مرتبت کے مطابق بنائے جاتے تھے۔ بتدریج کم ہوتے ہوتے یہ قبر کی شکل میں بھی موجود ہیں۔ یہ سٹوپے پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ میدانوں میں بھی بنائے گئے ہیں۔ ان میں سب سے اہم دھرما راجیکا سٹوپا ہے جو تیسری صدی کا ہے۔ روایات کے مطابق اشوک نے اپنے بیٹے کنالہ کی بینائی کی بحالی کی خوشی میں ایک سٹوپا بنوایا جو کنالہ سٹوپا کہلاتا ہے۔

گندھارا آرٹ اور تہذیبی میراث کے نادر نمونے اس علاقے میں جگہ جگہ مدفون ہیں۔ ٹیکسلا کی قدیم تہذیب کی باقیات کی تلاش کے لیے پہلی مرتبہ کھدائی آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے 1913 میں سر جان مارشل کی سربراہی میں شروع کی تھی جو 1934 تک جاری رہی۔ ٹیکسلا میوزیم میں 700 سے زائد نوادرات محفوظ ہیں۔
اپنے گاؤں بھوئی گاڑ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہاں قدم قدم پر قدیمہ آثار ملتے ہیں جو ہمارے پرکھوں کی یادگار ہیں۔ مگرلوگوں میں اس کا شعور نہیں ہے۔ بچپن میں بارش کے بعد ہم گاوں سے باہر سکے چننے جاتے تھے۔ بھوئی گاڑ میں تین سٹوپے تھے۔ چونکہ بدھ مردے کی ہڈیوں کے ساتھ دیگر قیمتی اشیاء اور ظروف وغیرہ بھی دفن کرتے تھے اس لیے خزانے کے متلاشیوں نے دو سٹوپوں کو کھود ڈالا ہے۔ ٹیکسلا حطار روڈ پرموجود بھلڑ سٹوپا بھی گر گیا تھا موجودہ سٹوپا پانچویں صدی عیسوی کا ہے۔ روایت ہے کہ مہاتما بدھ نے ایک بھوکے شیر کو یہاں اپنے جسم کا کوئی حصہ کھلایا تھا۔ اس کی مصفا چنائی ہے اور تعمیراتی حسن کا شاہکار ہے۔ اونچائی پر ہونے کی وجہ سے اس کی اٹھان قابلِ دید ہے۔

جناب نور محمد نظامی پوٹھوہار کی قدیم تاریخ وتہذیب پر اتھارٹی کا درجہ رکتھے ہیں اور اس موضوع پر بے تکان بولتے ہیں۔ بند ماضی کے جب در وا کرتے ہیں تو سماعتیں مر مٹتی ہیں۔ حالات کا جبر کہیے کہ آپ تعلیم حاصل نہیں کر سکے ورنہ کسی یونیورسٹی کے شعبہء تاریخ یا آثارِ قدیمہ کے سربراہ ہوتے۔ جو کچھ ملا ماحول سے ملا۔ گاؤں میں علما کے خانوادے تھے جہاں سے کتاب کا شوق پیدا ہوا۔ طویل سیاحت، مطالعے، مشاہدے اور سب سے بڑھ کر جنون نے آپ میں عالمانہ استدلال کی اہلیت پیدا کر دی ہے۔دلیل اور حوالے کے بغیر کوئی بات نہیں کرتے۔ پتھر آپ کے ہاتھ میں کلام کرنے لگتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ ڈاکٹر احمد حسن دانی اور ڈاکٹر سلیم اختر سے راہنمائی بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔

آپ کے نوے کے قریب تحقیقی مقالے مجلہ تاریخ و ثقافت، معیار، پیغامِ آشنا وغیرہ میں چھپ چکے ہیں۔ علما و مشائخ کے تذکروں کے بہت سے مسودے رقم کر چکے ہیں۔ سات سو صفحات پر مشتمل آپ کی کتاب '' تاریخ و تذکرہ گڑھی افغاناں'' کئی اور کتابوں کے مسودے تیار ہیں۔ ایک سفر نامہ ''ہرو کے ساتھ ساتھ'' زیرِ ترتیب ہے۔ اس کے علاوہ ''راولپنڈی تاریخ کے آئینے میں'' پر کافی کام ہو چکا ہے۔

زر پرستی کے اس دور میں کتاب پرستی کی اس منفرد مثال پر راجہ نور محمد نظامی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اپنی مٹی کو سونا سمجھنے والے اس آشفتہ سر کا کام اس معیار کا ہے کہ کوئی جامعہ انہیں اعزازی ڈگری عطا کرے۔جمالیات اٹک کا عملہ ادارت بھی تحسین کا مستحق ہے کہ اس نے جوہرِ قابل کی پذیرائی کا خصوصی اہتمام کیا ہے۔اس سلسلے میں اولیت کا سہرا صدائے پوٹھوہار سید آلِ عمران کو حاصل ہے جو دو سال پہلے کتب خانہ نور محمد نظامی پر جی کراں میں پروگرام پیش کر چکے ہیں۔

کتاب دوست

0 تبصرے

 



جامی صاحب سے غائبانہ تعارف تو تھا لیکن ملاقات گزشتہ سال مظفر آباد میں ایک شادی میں ہوئی۔ دلہے فرہاد احمد فگار کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ ہل چل مچی ہوئی ہے۔ پتا چلا کہ ہل چل کا باعث شادی نہیں بلکہ کراچی سے سید معراج جامی کی تشریف آوری ہے۔ ان کے اعزاز میں شعری نشست کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ احمد وقار میر اور شوکت اقبال مصور سخن فہموں اور عبدالمنان وانی، واحد اعجاز میر کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔ دلہے کے دوست حسن ظہیر راجہ شادی کے جھمیلوں کے سمیٹنے میں جت گئے ہیں۔ ڈاکٹر ماجد محمود اور ظہیرعمر جامی صاحب سے رودادِ سفر سن رہے ہیں۔ سب بہم ہوئے تو نشست برپا ہوئی۔ نشست کے بعد پرتکلف عشائیے کا اہتمام تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جامی صاحب ایک ایک شریک سے حال احوال کے ساتھ اس کی ضرورت کی کتابوں کی تفصیل بھی پوچھ رہے تھے۔

اگلے دن ولیمے کے بعد ہم تو لوٹ آئے لیکن جامی صاحب کشمیر و پختون خواہ میں جاننے والوں کے دیدار کے لیے نکل گئے۔ ایک ایک سے ملے، تصاویر بنائیں، گھر پہنچ کر سفر نامہ لکھا اور سب متعلقہ لوگوں کو ٹیگ کیا۔ اس شغل سے فارغ ہوئے تو فرمائشی فہرستیں نکالیں اور کتابوں کی تلاش میں لگ گئے۔ کسی کو کتابیں بلٹی کیں، کسی کو کسی کے ہاتھ بھیجیں۔ پاک پوسٹ کے بھی وارے نیارے ہو گئے۔ ہم بھی محروم نہیں رہے۔ ہمارے نام ماہانہ پرواز جاری کر دیا گیا، جس کی وصولی کی اطلاع کل پر ٹالتے ٹالتے 2016 گزر گیا لیکن پرواز کی ترسیل کا تسلسل رکا نہ کبھی گلا کیا۔

سیّد معراج جامی کے اجداد بغداد سے کلکتہ آ بسے۔ لکیر کھنچی تو کراچی آ گئے۔ کراچی میں دبستانِ داغ کے آخری استاد جناب فدا خالد دہلوی کی شاگردی اختیار کی۔ یوں آپ بھی دل کے دبستان سے وابستہ ہو گئے اور اب تک زندگی غموں سے بہلاتے ہیں۔ اپنے غم پالتے اور دوسروں کے بانٹتے ہیں۔ دل کا دورہ پڑ چکا ہے، اس کے باوجود امیدِ سحر میں دل کا دیا جلائے رکھتے ہیں۔

آپ زود نویس ہیں۔ پنجابی ماہیے اور دوہے سے لے کر جاپانی ہائیکو اور سین ریوز تک کوئی صنف سخن ایسی نہیں جس پر طبع آزمائی نہ کی ہو۔''معراجِ عقیدت'' اب بھی نعت اور غزل ہے۔ پچیس سال پہلے "روزن خیال " سے جھانکنے والے اب ''معراجِ فکر'' اور ''معراجِ خیال'' کو چھو رہے ہیں۔ نثری کاوشیں اس سے کہیں بڑھ کر ہیں جو ''مقالاتِ افتتاحیہ'' اور جناب جمیل جالبی کی ''تاریخ ادب اردو کا اشاریہ'' سے لے کر ''شعراء کراچی کا تذکرہ'' تک پھیلی ہوئی ہیں۔

آپ گلوبل ویلج کے ایک بڑے مرکز کراچی میں ادبی تقریبات منعقد کراتے رہتے ہیں۔ استنبول سے ارتباط، لندن سے پرواز، لیوٹن سے سفیر نکالنے میں شریک یا معاون ہیں۔ دہلی سے کتابیں شائع کراتے ہیں۔ کینیا میں کتاب کی تقریبِ رونمائی میں شریک ہیں۔ لندن میں مقالہ پڑھ رہے ہیں۔ کبھی'' بیوی سے چھپ کر 'ــــــــــــــــ'انگلستان خدا کی شان'' دیکھنے چلے جاتے ہیں۔

کتاب دوستی آپ کی گھٹی میں پڑی ہے۔ کتاب کے لیے سفر سعادت سمجھتے ہیں۔ فٹ پاتھوں سے لے کر کتب میلوں تک میں کتابیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ پاکستان میں کتاب دوستوں کی فہرست مرتب کی جائے تو آپ کا نام پہلے صفحے پر ہو گا۔ کتابیں ڈھونڈنے، جھاڑنے، خریدنے،سنوارنے اور بانٹنے کا عمل سال بھر جاری رہتا ہے۔ تعارف و تبصرہ کے ساتھ ساتھ نایاب کتابیں چھاپتے بھی ہیں۔ جناب فدا خالدی دہلوی کی رباعیات کے مجموعے آتشِ امروز کا دوسرا ایڈیشن 1995 میں دہلی سے شائع کرایا۔ کراچی کے کتاب دوست راشد اشرف کے اشتراک سے نایاب کتابیں بزمِ داغ اور آئینہء خیال شائع کروائیں۔ کل سرمایہء حیات حلقہ احباب، تخلیقات اورلائبریری ہے جس میں سات ہزار کتابیں ہیں۔

احباب کو کتابیں تحفتاً بھیجنا ان کی عادت اور عبادت ہے۔ اس فیض کی برکت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انہوں نے علامہ اقبال کے بارے میں ایک نایاب کتاب کا فوٹو کاپی ایڈیشن فرہاد احمد فگار کو گفٹ کیا۔ فرہاد سے یہ کتاب حسن ظہیر راجہ، قمرعباس، جناب جاوید احمد سے ہوتی مجھ تک پہنچی۔ یہ صرف ایک کتاب کی بات ہے۔ ایسی سینکڑوں کتابیں وہ دنیا بھر میں اپنے جاننے والوں کی نذرکر چکے ہیں۔

جناب معراج جامی جوہرِ قابل کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مل جائے تو اس کی پذیرائی کرتے ہیں۔ مظفر آباد میں جواں سال شاعر حسن ظہیر راجہ کو سنا تو حیران رہ گئے کہ سگلاخ پہاڑوں میں ایسی نمو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! پرواز دسمبر کے شمارے میں ان کی غزل اور فرہاد احمد فگار کا افسانہ کنگن بھی شامل ہے جن کی وال سے اس آرٹیکل کے لیے بنیادی معلومات اٹھانے کا سزا وار ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ افسانہ چھپنے کی خوشی میں وہ ادبی اخلاقیات کا یہ خون معاف کردیں گے۔


گرین گولڈ

0 تبصرے

 


کہوٹہ میں حضرت سخی سبزواری بادشاہ کا 8 روزہ سالانہ میلہ شروع ہے۔ الحمد للہ یہ بھنگ اور دیگر خبائث سے پاک ہوتا ہے۔ ہم نے سوچا کہ خوشی کے اس موقع پر اپنا حصہ ڈالا جائے۔ ویسے بھی بوجھل تحریریں پڑھ کرآپ تنگ آ چکے ہوں گے۔ اس لیے آپ کے ذوقِ لطیف کا خیال رکھتے ہوئے معاملات کو ہلکا پھلکا رکھا گیا ہے۔ چونکہ یہ مضمون ایسی بوٹی کے بارے میں ہے جس کے تصور سے ہی مدہوشی چھا جاتی ہے اس لیے ترتیب اور تناسب کی توقع رکھنا فضول ہے۔

کہوٹہ کی ہریالیوں میں بھنگ کا بڑا دخل ہے۔ کہوٹہ کا کوئی کونا ایسا نہیں ہے جس کی شادابیوں میں بھنگ نے سونے پر سہاگے کا کام نہ کیا ہو۔ لہذا اگر اس کا ذکر نہ کیا جائے تو احسان فراموشی ہو گی۔ ویسے بھی جب تک برقی لوح پر بھنگ کا اندراج نہ ہو ادھورا پن محسوس ہوتا رہے گا۔

پچھلے سال نسلِ نو کے مشاعرے میں ملتان سے آئے ہوئے شعرا ڈاکٹر وقار خان، عدنان آصف بھٹہ،عمار یاسر مگسی اور ارشدعباس ذکی کہوٹہ میں بھنگ کی کثرت دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ہمیں ان کی حیرت نے دم بخود کر دیا۔ ۔ہمار اب بھی خیال ہے کہ گرد، گرما، گدا اور گورستان کے ساتھ ساتھ بھنگ بوٹی بھی ملتان کی پہچان ہے۔

کوئی بھی چیز بے فائدہ نہیں۔ قدیم حکما نے اس کے جو خواص بیان کیے ان کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ یہ 72 بیماریوں کی قاتلہ ہے۔ گرمی کی رقیب ہے، جگر کے لیے اکسیر ہے، معدے کے لیے سوغات ہے، پیاس کی دشمن ہے، یہ ایک ایسا بیش بہا تحفہ ہے کہ اس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ صفحات اور سیاہی ختم ہو سکتی ہے بھنگ کی روشنائی ختم نہیں ہو سکتی۔

کہتے ہیں کہ اس بوٹی کو دعا ہے۔ ہر سال بڑے پیمانے پر اس کا قتل کیا جاتا ہے۔ آگ لگائی جاتی ہے۔ جڑ سے اکھاڑا جاتا ہے۔ لیکن مجال ہے اس میں کمی آئے۔ یہ کم ہو ہی نہیں سکتی کیوں کہ اس کا شمار مقدس بوٹیوں میں ہوتا ہے۔

بھنگ سادوؤں، سنتوں، صوفیوں اور ملنگوں کا نشہ ہے۔ جوانہیں مردود ماحول سے نکال کر آسمانوں پر لے جاتا ہے۔ بھنگی کو مخلوق چیونٹیوں سے بھی حقیر نظر آتی ہے۔ جمشید تو اپنے جام میں حالاتِ عالم کا مشاہدہ کرتا تھا جب کہ بھنگ کا پیالہ مریخ سے اگلے سیارچوں کا مشاہدہ کراتا ہے۔

آپ نے یہ منہ اور مسور کی دال کا محاورہ تو سنا ہو گا۔ یہ محاورہ اس طرح ہونا چاہیے کہ یہ منہ اور بھنگ کا پیالہ۔ کیونکہ یہ بڑا نخریلا نشہ ہے۔ یہ وقت، محنت اور پیسہ طلب تو ہے ہی ؛ پاکیزہ طبیعت کا تقاضا کرتا ہے۔ ۔ہرکس و ناکس اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

بھنگ اور حَشِیش آپس میں بہنیں ہیں۔ گو بھنگ کا لفظ حشیش کی طرح نشہ آور نہیں ہے لیکن خواب آورزیادہ ہے۔ بھنگ کی لسی کے اثرات تو شاید کم محسوس ہوں لیکن گولی جگر کے پار ہو جاتی ہے۔

فطرت نے جنگلی حیات کے تحفظ کا خود کار انتظام بھنگ کی کثرت کی صورت میں کر دیا ہے۔ اب اگر کوئی فطرت کے اشارے نہ سمجھے اس کا کیا کیا جائے۔ اس بیش بہا دولت کو گرین گولڈ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

بھنگ اور ترنگ ہم قافیہ نہ سہی لیکن مترادف ضرور ہیں۔ البتہ بھنگ اور رنگ ہم قافیہ ہیں۔ اسی لیے رنگ میں بھنگ ڈالنے کا محاورہ مشہور ہے۔

بھنگ کی تازہ برانڈوں میں؛ سائیں برانڈ، ملنگ برانڈ، قلندر برانڈ جب کہ خیبر پختون خواہ میں اسے مشعر برانڈ یعنی بزرگ برانڈ کہتے ہیں کہ نشوں میں اسے بزرگی بہرحال حاصل ہے۔

زندہ دلان پنجاب کا مشہور رقص بھنگڑا بھنگ پی کر کیے جانے کی وجہ سے بھنگڑا کہلاتا ہے۔ مجال ہے کوئی اور رقص اس کا مقابلہ کر سکے۔

بھنگ بے ضرر نشہ ہے اس سے نہ دانت خراب ہوتے ہیں نہ مسوڑے۔ یقین نہ آئے تو فٹ پاتھی دندان سازوں سے تصدیق کرا لیجئے۔

کوالیفائیڈ بھنگیوں سے ملنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو مزارات، مقابر اور قبرستانوں وغیرہ کا رخ کرنا ہو گا۔ کچھ خانقاہوں میں بھی یہ نایاب مشروب مل جاتا ہے۔

اگر بھنگ کے مخالفین ہماری تمام تر گزارشات کے باوجود اپنی اڑی پر قائم ہیں تو ان کا علاج شبیر حسن خان کے پاس ہے۔ وہ مکالات جوش کا پہلا مقالہ پڑھیں تو بھنگ تو کیا ڈوڈے کی کاشت شروع کر دیں گے۔

چائے کی مشہور اقسام میں برگد، پیپل، بھیکڑ اور بھنگ کی چائے شامل ہے۔ ان سب میں بھنگ اپنی گلاب خوشبو، صندل ذائقے کی وجہ سے مشہور ہے۔

باخبر بتاتے ہیں کہ شراب کا مزاج آتشیں جب کہ بھنگ کا مزاج آبی ہے۔نسوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ روشن دماغی کا باعث بنتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بھنگ روشن ضمیری پیدا کرتی ہے۔یہ حق شناسوں کا نشہ ہے۔شیشہ پینے والے بھلا بھنگ کی کرامات سے کیسے آشنا ہو سکتے ہیں۔ یہ دل نشین، سرور آور، غم شکن نشہ پنسلین کی صفات رکھتا ہے۔

بھنگ کا استعمال بہت آسان ہے۔ چاہیں تو بھنگ کے پتے کھا کر اوپر پانی پی لیں اور بغیر جہاز کے جا بجا کا سفر کریں۔ لیکن اگر اپ چاہیں تو اسے ہشت آتشہ کر سکتے ہیں۔ بادام، الائچی، کالی مرچ، خشخاش، گلاب کی پتیوں اور دودھ ملائی سے تیار ہونے والا آبِ حیات تمام مشروبات کا سردار اور جملہ امراضِ خبیثہ کا تیر بہدف علاج ہے۔

بھنگ شاہی نشہ ہے۔ نصیر الدین ہمایوں چرسی تو تھا بلا کا بھنگی بھی تھا اور اسے یہ سب وراثت میں ملا تھا۔ اس کے والدِ گرامی ظہیر الدین محمد بابر کی فتوحات کا راز بھنگ، چرس اور معجون تھا۔

ظہیر الدین بابر اس کی محض ایک مثال ہے۔ یہ اکثر فاتحین کا مرغوب نشہ رہا ہے۔ کیوں کہ یہ درد کی دوا ہے۔ جنگ میں بھنگ پی کر جائیں تو توپوں کے دھانے سرد ہو جاتے ہیں۔ تاریخی ریکارڈ کھنگالا جائے تو بھنگ مخالفیں کے چھکے چھوٹ جائیں۔ ان کی ہوائیاں اڑانے کے لیے ایک آدھ حوالہ ہی کافی ہو گا۔ عجاب گھر لاہور کے سامنے زمزمہ توپ کا اصل نام بھنگیانوالی توپ ہے۔ یہ سکھوں کی بھنگی مثل کے زیرِ استعمال رہی اور جنگوں میں فیصلہ کن کردارادا کرتی رہی۔ اس مثل کی وجہء شہرت بھنگ تھی۔ بھنگ پی کے توپ کا گولہ بھی نشے میں آ جاتا۔ ہمارے ہندو مہربان اسے مہادیو کا سایہ اور شیواجی کا اوتار سمجھے حالانکہ سب کمال بھنگ کا تھا۔

بھنگ کی کس کس صفت پر بات کی جائے۔ اس کی قامت، رنگت، پتوں کی ساخت اور خصوصاً خوشبو سب نشیلے ہیں۔ چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔

فقیری نشے پر پابندی سے جو عذاب نازل ہوئے ہیں وہ شمار و قطار سے باہر ہیں۔ ہیروئن، گانجا، مارفیا۔۔۔۔۔۔انگریز ذہین تھا اس نے اس کے استعمال کو آئینی تحفظ فراہم کیا ہوا تھا۔ جگہ جگہ بار اور بار کے ساتھ بھنگ شاپ۔۔۔۔مجال ہے سو سال کوئی بغاوت ہوئی ہو۔

کہتے ہیں بھنگ پر برف پڑ جائے تو یہ سونا بن جاتی ہے۔ اس سے گردہ نکالا جاتا ہے۔ اسے بھیڑ کی کھال میں رکھا جاتا ہے۔ پھر اسے دنبے کی کھال میں رکھا جاتا ہے۔ گردہ سرخ ہو جاتا ہے۔ پھر اسے آتش دکھائی جاتی ہے جس سے سیاہ ہو جاتا ہے۔

بھنگ ذی دماغوں کا نشہ ہے۔ ہمہ شمہ کے بس کی بات نہیں۔کسی صاحبِ بھنگ سے شجرہ نسب پوچھیئے۔ لگ پتا جائے گا۔ سقراط، بقراط یا افلاطون سے نہ ملتا ہو تو ہم لکھنا چھوڑ دیں۔

بھنگ کْے پیالے کا مقابلہ جامِ جمشید بھی نہیں کر سکتا۔ کائنات روشن ہو جاتی ہے۔ یہ ایسی سرشاری، بے نیازی اور بادشاہت عطا کرتا ہے کہ بھنگی کبھی خود کو سکندر سا زورآوراور آئن سٹآئن سا عالی دماغ محسوس کرتا ہے۔

اس ملامتی نشے میں سلامتی کی درجنوں صورتیں ہیں۔ چرس کے نشے میں بے برکتی ہے۔ چٹکی بھر چرس نکل آئے تو نام نہاد مہذب ممالک میں لٹکا دیتے ہیں۔ جب کہ بھنگ ٹنوں کے حساب سے ایکسپورٹ کی جائے تو پھر بھی کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہے۔

بھنگ کٹوروں سے پی جاتی ہے۔ مشاق بھنگی کٹورے تو کیا گھڑے چڑھا جاتے ہیں۔ ہر نشے کی انتہائی مقدار مقرر ہے۔ خطرے کے نشان کے بعد موت واقع ہو جاتی ہے۔ انسانی تاریخ میں ایک بھی واقعہ ایسا نہیں کہ بھنگ کے کثرتِ استعمال سے موت کے فرشتے حرکت میں آئے ہوں۔ جتنی چڑھا جائیں اتنا فائدہ مند ہے۔

الحمد للہ کہ ہمارے مقامی حکماء خالص بھنگ سے ادویات تیار کر رہے ہیں۔ ورنہ سندھ میں بھنگ کے نام پر گھاس ڈیڑھ ہزار روپے کلو میں بلیک ہو رہی ہے۔

یہ تو طے ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ لوکل مال پر گزارہ نہیں کرتی۔ پیپسی، کوکا کولا اور ایسے ہی دوسرے سوڈا مشروبات نے زرِ مبادلہ اور صحت کو تباہ کر دیا ہے۔ اس لیے بھنگ سوڈا فوراً جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھنگ نسوار، بھنگ پھکی، بھنگ چورن، بھنگ چاکلیٹ کو فوراً مارکیٹ کرنے ک اشد ضروری ہے۔


بھنگ کی برکات پر جتنی بھی بات کریں کم ہے۔ اس لیے جو کسر رہ گئی ہے وہ کمنٹس میں پوری کر دیجئے گا۔خصوصاً بھنگ شاعری کا ہمیں انتظار رہے گا۔ یہ بور، بے ترتیب، اور بھنگ آلود آرٹیکل آخر تک پڑھنے کا شکریہ۔

راستے قہقہے لگانے لگے

0 تبصرے

 


مٹی کا شجر

0 تبصرے

 



بانسری کی سریلی آواز نے جنگل میں جادو جگایا ہوا ہے ـــــ ڈھول کی تھاپ پر برہنہ پا ڈالیں رقص کر رہی ہیں ـــــ کہیں کتوں ککڑوں اور بٹیروں کا ٹکراو ہو رہا ہے ـــــ کہیں تیتروں کی آوازیں لگ رہی ہیں ـــــ شام کو کھلی جگہوں پر کوڈی کوڈی کی تکرار سنائی دے رہی ہے ـــــ جگہ جگہ والی بال کے تماش بینوں کا شور اٹھ رہا ہے ـــــ رات دیر گئے تک گھڑے ستار کی لے پر پوٹھوہاری شعر خوانی کی محفلیں برپا ہیں ۔۔۔۔!

یہ اکیسویں صدی کے شروع کے کہوٹہ کا منظر نامہ ہے۔ بموں اور میزائلوں کے کامیاب تجربوں سے کہوٹہ کو عالمگیر شہرت مل چکی تھی۔ لیکن کہوٹہ کے کلچر میں کسی نئے عنصر کا اضافہ نہیں ہوا تھا۔ اسی دوران شہر ایک مسیحا بغل میں سخن کا صیحفہ دبائے شہر میں داخل ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل جاتا ہے۔

علمی اور فکری تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے۔ شعور کی بیداری عبادت ٹھہرتی ہے۔ لفظ کی حرمت پر بات ہونے لگتی ہے۔ انجیلِ آگہی کے ورق کھلتے ہیں۔ سنتِ سقراط کا احیاء ہوتا ہے۔ حقیقت اشیاء کے ادراک کی دعائیں ہونے لگتی ہیں۔ شہر کے ہوٹلوں میں وجود اور جوہر، محنت و سرمایہ اور زمان و مکاں پر مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ ادبی نشستیں معمول بن جاتی ہیں۔ ڈانس آف ڈارکنس، بجھی ہوئی شام، پانی، کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں، بے ستوں، نعت نگینہ کی تقریب رونمائی ہوتی ہے ــــــ مقامی شعرا کا انتخاب سنگ زادوں کے خواب کے نام سے چھپتا ہے ــــــ بہزاد جاذب، گلنار آفریں، رومانہ رومی، انور مسعود کے ساتھ شامیں منائی جاتی ہیں ــــــ ایک سے بڑھ کر ایک مشاعرہ ہوتا ہے۔ ملک بھر سے شعرا کہوٹہ تشریف لاتے ہیں۔ یہاں تک کہ احمد فراز کی آخری سخن سرائی کہوٹہ کے حصے میں آتی ہے۔ اب اس گلزار کے تازہ گلابوں حسن ظہیر راجہ اور قمر عباس سے چمن چمن مہکا ہوا ہے اور نئے غنچے خوشبو کے سفر پر نکلنے والے ہیں۔

پچھلی صدی کی پچاس کی دھائی میں کہوٹہ کے دورافتادہ گاوں سوڑ کی سنگلاخ چٹانوں میں ایک چشمہ پھوٹا جس کی جلترنگ اردو دانوں کی سماعتوں میں ہمیشہ شیرینیاں گھولتی رہے گی۔

نقوشِ اول بتا رہے تھے یہ عام لڑکوں سے منفرد ہے۔ ایک دن ہیڈ ماسٹر صاحب کلاس میں تشریف آئے اورغالب کے اس شعر کی تشریح پوچھی ؎
گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلی نہ طور پر۔۔۔ دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر

کلاس میں صرف ایک دست فراز تھا ـــــ جاوید احمد ! جب لب کشا ہوا تو سربراہِ ادارہ کے ساتھ ساتھ استادِ محترم بھی حیرت زدہ رہ گئے۔

سکول گاوں سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر لہتراڑ میں تھا۔ راستے میں 5 ہزار فٹ بلند پہاڑی چوٹی پر تکان دور کرنے کے لیے پڑاو ہوتا۔ ایک مرتبہ پہاڑی ڈھلوانوں پر تہہ بہ تہہ سرسبز کھیتوں میں سرخ و کبود رنگوں میں ملبوس مرد وزن دیکھ کربے اختیار کہا ؎
یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کا چلنا یہ بادلوں کا افق سے اٹھنا
یہ سبز کھیتوں میں سرخ آنچل نکھار فطرت کے بانکپن کا

ہونہار بروا کے چکنے پات سخن کے کسی شجرِسایہ دار کی نشاندہی کرتے تھے۔ میٹرک کے بعد جونیئر ورنیکلر ٹیچر کا کورس کرنے نارمل سکول لالہ موسیٰ چلے گئے۔ جہاں 16 سال کی عمر میں جناب احسان دانش کی صدارت میں پہلا مشاعرہ پڑھا ؎
کلی کو پھر چٹک جانا پڑا ہے ۔۔ دلوں کو پھر دھڑک جانا پڑا ہے
یہ آنچل کو نہ جانے کس لیے اب ۔۔ حسیں رخ سے ڈھلک جانا پڑا ہے

جے وی کے بعد مدرسی کے بجائے سپہ گری کا پیشہ اختیار کر لیا۔ فوجی ڈسپلن شاعرانہ طبیعت پر بار تھا۔ اس لیے عسکری ماحول سے نکلے اور کراچی ریڈیو چلے گئے۔ یہ ہجرت انہیں راس آ گئی۔ ایک خضرِ راہ '' قمر جمیل '' مل گئے جنہوں نے جاوید احمد کو عمر جاوید کا جام پلا دیا۔

کراچی میں رسمی اور غیر رسمی تعلیم کی تکمیل کی تمام حسرتیں تمام ہو گئیں۔ اردو کالج میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ابوالخیر کشفی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے کسب فیض کیا۔ جامعہ کراچی کی علمی رنگینیوں نشاط افروز تھیں۔ ایک دفعہ ایک طرح مصرع : '' کہہ رہا ہے موجِ دریا سے کنارہ شام کا '' پر طبع آزمائی کی دعوت دی گئی ـــــ بہت مقابل تھے پر جاوید جاوداں ٹھہرے ؎
لے گئے وہ ساتھ اپنے حسن سارا شام کا ۔۔ ہجر کی تصویر ہے اب ہر نظارہ شام کا
لوٹ کر وہ شام سے پہلے ہی گھر آنے لگے ۔۔ ان سے شاید چھن گیا کوئی سہارا شام کا

قمر جمیل صاحب کے ساتھ گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں ہیڈگر، سارتر، کافکا وغیرہ کو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ کراچی ریڈیو میں سارہ شگفتہ، فاطمہ حسن، حمایت علی شاعر، منظر ایوبی اور امید فاضلی سے ملاقاتیں رہیں۔ انچوئلی میں سلیم احمد کے ساتھ قد آور شخصیات کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ خرد افروزوں کے ساتھ ساتھ احمد جاوید کی عشق افروز گفتگو نے جاوید احمد کو ہمہ جہت بنا دیا۔

سلیم کوثر کی ہمسائیگی نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ سحرخیزی سے شب خیزی تک روئے سخن سنوارتے۔ جوش صاحب کو تھام تھام کر مشاعرہ گاہ تک لانے کی سعادت ملی ـــــ اور پھر نائن زیرو کراچی سے لال قلعہ دہلی تک اور سرینگر سے پانی پت تک سخن کے معرکے سر کیے۔

ایسا لگتا ہے کہ جاوید احمد کا خمیر موسیقی سے اٹھا ہے۔ کراچی ریڈیو میں اسے اور جلا ملی جب مہدی حسن کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر سے انہوں نے باقاعدہ موسیقی سیکھنا شروع کی۔ پھر تو وہ رنگ چڑھا کہ منیر نیازی نے بے خود ہو کر ماتھا چوم لیا۔ جشنِ جان ایلیا میں بکھرنا ٹوٹنا بھی اور ہوا کے ساتھ بھی رہنا ترنم سے پڑھی تو لوگ حنا تیموری کا ترنم بھول گئے۔

2001 میں آزادی کشمیر کے حوالے سے ان کی نظموں اور ترانوں کا مجوعہ دنیا کے منصفو! چھپا اور ہاتھوں ہاتھ نکل گیا۔ جاوید احمد کی شاعری، عبداللہ مرحوم کی موسیقی اور رخسانہ مرتضٰی کی آواز صدر ہاوس کی آہنی دیواروں سے چھنّا گئی اور صدارتی تحسین کی مستحق ٹھہری ؎
بس اتنی سی مری تقدیر بدلی ۔۔ کبھی ذنداں کبھی زنجیر بدلی
نہ ان آنکھوں نے اپنے خواب بدلے ۔۔ نہ خوابوں نے کوئ تعبیر بدلی

اس سے پہلے 1997 میں ''مثال'' چھپی جس کے معیار کو اردو کے سرخیل سخنوروں نے سراہا۔ جناب ظفر اقبال نے لکھا کہ جاوید احمد نے جدید تر غزل کے امکانات میں اضافہ کیا ہے۔ افتخار عارف نے کہا کہ جاوید احمد دل کے لہجے میں گفتگو کرتے اور ان کے جذبے دلوں کو چھوتے ہیں۔ رشید امجد نے لکھا کہ ان کی شاعری نئے جہانوں کے اسرار کھولتی ہے۔
لمحہ لمحہ ترے خیال میں ہے ۔۔ زندگی عالم مثال میں ہے

''مثال'' کی بے مثال پذیرائی کے بعد امکاناتِ آئندہ کے دھنک رنگ لیے اب ان کا تازہ مجموعہ کلام ''مٹی کا شجر'' شائع ہوا ہے ؎
کھلے ہیں مجھ میں امکاناتِ آئندہ کے بھی رنگ
نرالی میری خوشبو ہے میں مٹی کا شجر ہوں

ہماری خوش نصیبی ہے کہ ایک ایسا عالی دماغ شاعر ہمارے درمیان موجود ہے جس کا لہجہ اس سنگلاخ لسانی پٹی میں تہذیبی زرخیزی لیے ہوئے ہے۔ زندہ معاشرے زرخیز ذہنوں کو اپنا فخر سمجھتے ہیں۔ ''مٹی کا شجر'' کی پذیرائی سے ہمیں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔

ڈھوک دریک ۔ ایک اوجھل نگینہ

0 تبصرے

 


ایک دوست نے دریک ہم سفری کی دعوت دی تو مصروفیت کے باوجود انکار نہیں کر سکا۔ انکار نہ کرنے کی وجہ دوستی نہیں بلکہ دریک تھی۔ لفظ دریک ویسے تو مؤنث ہے لیکن پیڑ، بوٹا، درخت، شجر، نخل اور پھر گاؤں، گوٹھ، موضع، قصبہ کے باعث مذکر بولا جاتا ہے۔ ہم اسے مؤنث ہی استعمال کریں گے کیوں کہ یہ فوراً جوان ہو جاتا ہے۔ اس کی لکڑی پسلی کی طرح بے لچک ہوتی ہے۔ تند ہوائیں اسے توڑ دیتی ہیں۔ اس کا برقع (چھال) خاکستری اور سرمئی لیکن ملائم اور چمکدار ہوتا ہے۔ برقع اتاریں تو اس کا تنا ہلکا سرخی مائل سفید اور بھورا ہوتا ہے۔ اس کا چھتری نما پیڑ جھلسے ہوؤں کو پناہیں فراہم کرتا ہے۔ اس کے برگ، گل اور ثمر کے خواص کے احاطے کے لیے علاحدہ دفتر درکار ہے۔ دھرکانو معصوموں کی گولہ باری کے کام بھی آتے ہیں۔

 

دھریک فیض بخش ہے۔ اسے روشنی اور تھوڑا بہت پانی ملے تو دیگر پیڑوں کی نسبت زیادہ آکسیجن دیتی ہے۔ اس کے دو پنکھی اور سہ پنکھی داندانہ دار پتے بکریوں کے لیے من و سلویٰ سے کم نہیں۔ دھریک کی نئی نویلی کلیاں چنبا اور چنبیلی کو شرماتی ہیں۔

 

دریک کے لیے ہم کہوٹہ سے نکلے تو تخیل میں دریک کی دو رویہ قطاریں راولاکوٹ کراس کر گئیں۔ خزاؤں کی حاکمیت کے باوجود فضائیں دھریک کے چھوٹے چھوٹے، ہلکے ہلکے اور اودھے اودھے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبوؤں سے بھرئی ہوئی تھیں۔ نیم کی اس بہن دھریک (بکائن) کا عوامی تلفظ تہریک ہے۔ لیکن ڈھوک دریک کے بھلے مانس اسے دریک کہتے اور لکھتے ہیں۔

 

یہ ایک اتوار کی خوبصورت صبح تھی۔ کہوٹہ پتن روڈ پر جنت ارضی کی طرف جانے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ زیادہ تر راولاکوٹ، بن جوسہ اور تولی پیر کے لیے رواں دواں تھے۔ ایک ہم تھے جو دریک کو قبلہ کیے ہوئے تھے۔

 

چھوٹی جگہوں کو بڑی جھیلیں اور اونچی چوٹیاں ابھرنے نہیں دیتیں۔ آج تک دریک کے لیے کسی سیاح نے رختِ سفر باندھا نہ اسے موضوعِ سخن بنایا۔ مصنوعی بن جوسہ کے رسیا بھلا دریک کے قدرتی نالے پر باندھا گیا بند دیکھنے کیوں جائیں گے؟ ایک دریک ہی نہیں، اس کے پڑوسیوں اور پڑوسنوں سے بھی دنیا ناواقف ہے۔

 

دریک وادی پرل کے دل راولاکوٹ کے پہلو میں آباد ہے۔ چہڑھ بازار سے گزرتی سڑک عیدگاہ اور ڈیم سے ہوتی دریک بازار میں داخل ہو جاتی ہے۔ سنگ سرخ سے بنی ایک عمارت، وسیع قدرتی میدان، گرلز کالج، ڈیم اور دہمنی میں ایک شکستہ ٹمپل اہم مقامات ہیں۔ مارگلہ کے مقام پر دریک اور چہڑھ کی چوٹیوں کا سنگم ہے۔ موسمِ گل میں اس کے رنگ ڈھنگ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ دریک پت جھڑ میں بھی قابل دید ہے۔

 

دریک کی وجہ تسمیہ کے بارے میں ہمارا خیال یہ ہے کہ پٹکوں اور شملوں کے دور میں یہاں ”اچیاں لمیاں دریکاں” ہوں گی۔ اب وہ دریکیں رہیں نہ وہ شملے۔ البتہ ماہیوں میں ان کی خوشبو اب بھی رچی بسی ہے؎

 

اچی لمی دھریک ہووے

کتھوں تویز آنا

مینڈا ماہیا نیک ہووے

 

دریک خوبصورت ڈیم کے علاوہ اپنی لیڈیز مارکیٹ کی وجہ سے بھی منفرد ہے۔ جہاں دکاندار اور گاہک سب خواتین ہیں۔ بوتیک، پارلر، کاسمیٹکس اور جیولری کے ساتھ ساتھ سلائی اور ٹیوشن سنٹر بھی ہے. پاس ایک چشمہ ہے۔ سکھیاں اپنی گاگروں میں تازہ پانی بھرنے سے پہلے تازہ چوڑیاں چڑھانے یہاں چلی آتی ہیں۔

 

دریک کی مٹی میں پونچھ کے دیگر علاقوں کی طرح بغاوت کی کھنک ہے۔ جب کشمیر گلاب سنگھ کی جاگیر بنا تو اس کے خلاف مزاحمت لچھمن پتن (آزاد پتن) سے طولی پیر تک پھیل گئی۔ اس میں دریک بھی شامل تھا۔ اس تحریکِ حریت کے ایک شہید کیپٹن حسین خان نے جن ڈوگرہ علاقوں کو فتح کیا ان میں دریک بھی تھا۔ تحریک مزاحمت میں دریک کے سردار عبدالرحمن بھی ہیں جنہیں اس تحریک کے کمسن قیدی کا اعزاز حاصل ہے۔

 

کشمیر کی شناخت چنار ہے۔ لیکن دریک اور کشمیر میں کچھ صفات مشترک ہیں۔ دونوں دل کش اور فیض بخش ہیں۔ دونوں درانتیوں اور کلہاڑیوں کی زد میں رہتے ہیں۔ دونوں کہرے اور خشک سالی کا شکار ہیں۔ سامراج عوام کو دھرکانووں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ شاید وہ اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ ایک دھرکانو سے دو سے چار تک پودے سر نکالتے ہیں۔ دھرکانو لمبائی کے رخ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور بیٹھک کے صداقت طاہر کے اس شعر کی یاد دلاتا ہے ؎

 

بیج پھوٹا کہ تہہِ خاک بغاوت پھوٹی

ایک ہی جڑ سے تنے دو نکل آئے ہائے