%20(2).jpg)

قصہ
گوؤں نے الف لیلوی سلسلے کی مقبولیت دیکھ کر گیارہویں صدی میں ایک اور عشقیہ
داستان سیف الملوک اور بدیع الجمال کے نام سے گھڑی، جسے انیسویں صدی میں کھڑی کے ایک
صاحبِ عرفان نے آسمان کر دیا۔
چک
ٹھاکرہ کا محمد بخش بکریاں چرانے کا آبائی معمولی چھوڑ کر جموں کے ویرانوں اور
چناب کے دھانوں پر مجاہدوں میں ایسے مصروف ہوا کہ من کے موتی کو جا لیا۔ اس سُچے
فقیر نے ایک پری پیکر سے مصری شہ زاد کے سفر العشق کو یوں نظم کیا کہ اس پر
الہام کا گمان گزرنے لگا۔ اس سے پہلے یہ فارسی داستان سرائیکی، پنجابی اور دکنی میں
نظم ہو چکی تھی۔ لیکن میاں محمد بخش نے پنجابی کے پہاڑی لہجوں پہاڑی، ڈوگری،
پوٹھوہاری اور ہندکو سے رس نچوڑ کر وہ شفا بخش لہجہ تشکیل دیا جس کی گزشتہ
سوا صدی سے جہلم و سندھ کے بیچ حکمرانی ہے۔
اس
ملکوتی آہنگ میں اردو پنجابی کے ایک جلیل القدر اور عالی مرتبت شاعر جلیل عالی نے
ایک نعتیہ مجموعہ 'نور نہایا رستہ' تشکیل دیا جو پچھلے سال سیرت ایوارڈ کا حقدار
ٹھہرا۔
اردو
اور سیف الملوکی پنجابی کے لسانی اور صوتی اختلاط سے جنم لینے والے اس رسیلے آہنگ
کو امین راحت چغتائی نے سیف الملوکی آہنگ کا نام دیا ہے۔ اس آہنگ نے اردو کے لسانی
گل دستے میں ایک اور سجل پھول ٹانک دیا ہے۔ پہلے پنجابی صنف وار کے آہنگ کو دل
کشاد اردو نے کھلے بازؤں گلے لگایا۔ اب سیف الملوک کی لے اہلِ درد کو لوٹ رہی ہے۔
'نور
نہایا رستہ' نعت کے علاوہ حمد، منقبت اور سلام پر مشتمل ہے۔ سیف الملوکی آہنگ میں
صرف ایک نعتیہ غزل اور ایک نعتیہ نظم ہے۔ غزل میں سات جب کہ نظم میں سو شعر ہیں۔
نعت اور سیرت کے بیان کی یک جائی نے اس نظم کو اس کتاب کا دل بنا دیا ہے۔ نعت کے
مضمون میں سیرت کے ستارے کی جگ مگاہٹ بہ قول حمید شاہد عالی بخت کو ہی مل سکتی ہے۔
نور
نہایا رستہ 2018 میں منظرِ عام پر آئی لیکن جلیل عالی نصف صدی سے اسی سیدھے
رستے کے راہی ہیں۔ اب تو انہوں نے رحمت کے دریا کو جا لیا ہے اور نعتوں کی مشکیں
بھرنا شروع کر دی ہیں۔ لیکن یہ سب اتنی آسانی سے نہیں ہو گیا۔ اس دوران طوفان
اٹھتے اور گمان بھنور بنتے رہے لیکن ان کے دل پہ لکھا اسمِ عالیؐ پناہیں فراہم
کرتا رہا۔
دنیا
کیا تسخیرے مجھ کو
شوق
ترا تعمیرے مجھ کو
تیرے
دھیان کے اپنے موسم
کیسے
وقت اسیرے مجھ کو

نور
نہایا رستہ کے خود فراموش آہنگ سے قاری کا دھیان انشااللہ خان انشا، جارج گریرسن،
حافظ محمود شیرانی اور جمیل جالبی کے اردو کے پنجابی پن، جنم استھان اور
پالن ہار کی طرف جاتا ہے۔ خصوصاً میاں محمد بخش کی پوٹھوہاری پنجابی اردو کے زیادہ
قریب ہے۔ شق القمر کا بیان دیکھیے ؎
چاند
حضور کا چاکر، رخ پر خدمت کر پروانہ
اپنا
بدن دو ٹکڑے کر کے پیش کیا نذرانہ
جو
زندہ لوگ مردِ مومن کے معیار پر پورے اترتے ہیں جلیل عالی ان میں نمایاں ترین ہیں۔
اقبالیت کے ساتھ ساتھ سیف الملوکیت بھی فکری اٹھان کا تقاضا کرتی ہے؎
ہر
بیتے وچہ رمز فقر دی جے تدھ سمجھ اندر دی
گل
سُنا محمد بخشا عاشق تے دلبر دی
عشق
بور کو نور، پتھر کو پارس اور سونے کو کندن بنا دیتا ہے۔ تازہ تر تخلیق کے لیے ماہ
و سال کی قید نہیں رہتی۔ تخلیق کی شاخ سے نو بہ نو کونپلیں عمر بھر
پھوٹتی رہتی ہیں۔
'سفر
العشق' نے حرفِ جار کے اضافی بار کو کم کر دیا ہے۔ دھیان سفر کا جلیل راہی
نور نہائی سطروں پر لفظوں کے سجرے ستارے ٹانکتا شوق بہشتوں کی طرف رواں دواں ہے۔
وہ سوچ تھلوں کے گھور اندھیروں سے نکلتا، چپ صحراؤں سے گزرتا، نجف کربلا کی زیارت
کرتا، مکہ مدینہ پہنچ جاتا ہے۔
خواب
دریچہ، شوق ستارہ، عرضِ ہنر سے آگے پر ملنے والے امتیازی تمغے، ادبی ایوار، اعترافیہ
وثیقے اور تخلیقی تسلسل پر سخن سازوں کی مسلسل پذیرائیاں اپنی جگہ اہم سہی لیکن
نور نہائے رستے پر ملنے والا سیرت ایوارڈ ان سب سے بڑھ کر ہے۔ اس کا حصول اتنا
آسان نہیں کہ اس کے لیے چودھراہٹ کے شملوں سے وجود کی گرد جھاڑنی پڑتی ہے۔
نور
نہائے رستے میں لفظوں کے ستارے اس حسن سے ٹانکے گئے ہیں کہ دو چار قدم چلیں تو سبز
گنبد کی جگ مگاہٹ خاکی وجود کو نور سے نہلا دیتی ہے۔ قاری مدینے کی گلیوں کا ناظر
بن جاتا ہے۔ آنکھ کے رستے دل کو نور سے نہلاتا چلا جاتا ہے۔ اگر وہاں سے
اٹھتا ہے تو ایک حجرے کے در سے سماعتوں میں نور گھلتا ہے۔ تم نے قرآن نہیں پڑھا؟
کان خلق رسول القرآن ؎
اک
صورتِ تعمیر جو جھلکی سرِ قرآں
روشن
ہوئی مینارہِ سیرت سے زیادہ
'نور
نہایا رستہ' نے گویا حضورِ حق ان کی باریابی کی بھی توثیق کر دی ہے۔ زندہ
لوگوں پر نگاہ کی جائے تو جن عالی مرتبت اور جلیل القدر ہستیوں پر نظر ٹھہرتی ہے
جلیل عالی ان میں نمایان ترین ہیں۔
سخن
درد انگیز ہو تو انمول ہوتا ہے۔ کتاب کھولی تو لکھا تھا کہ اس کی کوئی قیمت
نہیں۔ کتاب ختم کی تو پلکوں پہ جگ مگ موتی کہہ رہے تھے کہ درد کی
قیمت ادا بھی نہیں کی جا سکتی؎
یہ
نعت کا اعجاز ہے لکھتے ہیں تو خود ہی
بنتی
ہے کوئی بات عبارت سے زیادہ