ہفتہ، 25 دسمبر، 2021

قلعہ آئن

0 تبصرے

 



قلعہ آئن ، ہلاڑ ، تحصیل سہنسہ آزاد کشمیر میں دریائے جہلم کے غربی کنارے پر ایک پہاڑی چوٹی پر ہے۔ تحصیل کہوٹہ میں دو جگہ سے دریا ئے جہلم عبورکیا جا سکتا ہے۔ ایک آزاد پتن اور دوسرا ہلاڑ۔ہلاڑ سے سہنسہ جاتے ہوئے پانچ منٹ کی پیدل مسافت پر بائیں جانب نالہ گوئیں کے سبز پانیوں پر بنے پل کو کراس کریں تو ایک سڑک تحریک آزادی کشمیر کے باوقار سپوت اور عظیم سماجی لیڈر کرنل خان محمد خان کے گاؤں’’چھے چھن‘‘ سے ہوتی ہوئی آزاد پتن تک جاتی ہے۔چھے چھن سے آزاد پتن کا فاصلہ تقریبا 13کلومیٹر ہے۔ جب کہ بائیں ہاتھ ایک پتھریلی سڑک دریا کے پہلو بہ پہلو قلعے کی طرف جاتی ہے۔

دریائے جہلم پر ’’نیلم جہلم ‘‘اور ’’کوہالہ پاور پراجیکٹ ‘‘ کے بعد یہاں 720میگا واٹ کا’’ کروٹ ہائیڈل پاور پراجیکٹ ‘‘ہے ۔اس کی تخمینہ لاگت ایک کروڑ 40لاکھ ڈالر لگائی گئی ہے ۔اس منصوبے کا کام پاکستان کے وزارت پانی و بجلی کے ماتحت ادارے نے چین کی تین تعمیراتی کمپنیوں پر مشتمل کنسوریشیم کو الاٹ کیا ہے۔ ڈیم کے دو سپل وے بنائے جائیں گے جن کی بلندی 91میٹر ہو گی۔ اس کی مدت تکمیل 8سے 10 سال ہے۔کام کا آغاز ہوئے ایک سال ہو چکا ہے۔ پنڈی سے ہلاڑ تک سڑکوں پر جاری تعمیراتی کام اسی پاور پراجیکٹ تک ہیوی مشینری اور عملے کی رسائی کے لیے کیا جا رہا ہے۔

ہلاڑ سے آئن تک تین گھنٹے کی ہائیک ہے۔ اگر آپ چاہیں توموضع ’’تل‘‘ تک جیپ یا 125پر جا سکتے ہیں۔لیکن نصف مسافت پر واقع ’’تل ‘‘گاؤں سے آگے روڈ کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔تل گاؤں سے یہ قلعہ نظر آتا ہے۔سڑک قلعے کے قریب گاؤں ’’آئن‘‘ تک چلی گئی ہے۔لیکن اس کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ آثار سے لگتا ہے کہ پندرہ بیس سال پہلے روڈ بنایا گیا تھالیکن carpeting نہ ہونے کی وجہ سے مٹی اور بجری بہہ گئی ہے اور نوکیلے پتھر رہ گئے ہیں۔سڑک اور قلعے کے درمیان 20منٹ کی پیدل مسافت ہے۔

تہذیبوں کی طرح قلعوں کا دریاؤں سے گہرا تعلق رہا ہے۔ زیادہ تر قلعے دریاؤں کے دھانے پر بنائے جاتے رہے ہیں۔دریا نہ صرف پانی کی فراہمی کا ذریعہ ہیں بلکہ ایک قدرتی دفاعی حصّار اوراشیاء کی ترسیل کا ذریعہ بھی ہیں۔اس کے علاوہ اکثر و بیشتر دریا ممالک کے درمیان سرحدوں کا کام بھی کرتے ہیں ۔ اس لیے سرحدوں کی حفاظت کے لیے ان کے دھانے قلعے تعمیر کیے جاتے ہیں۔قلعے کی لوکیشن دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔اس جگہ دریا کا پھیر ہے۔دائیں، بائیں اور سامنے دریا ہے۔پشت پر دور گاؤں نظر آ رہا ہے۔مشرق میں کہوٹہ کا بڑا علاقہ خصوصاً پنجاڑ سے پونا تک نظر آتا ہے۔قلعہ سائز میں چھوٹا ہے۔ آپ اسے سرحدی یا پولیس چوکی یا واچ ٹاور کہہ سکتے ہیں۔

قلعے میں ایسی کوئی تختی یا تحریر نہیں ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ کس نے کب اور کن مقاصد کے تحت تعمیر کروایا ہے۔لیکن اگر کشمیر کی تاریخ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو کسی تختی و تحریر کی ضرورت نہیں رہتی۔ آزاد کشمیر میں موجود زیادہ تر قلعے گکھڑوں(قلعہ منگلا ،قلعہ تقلو،میرپور )،منگراں حکمرانوں(قلعہ تھروچی ،گلپور) اور ڈوگروں(قلعہ آئن،قلعہ بھیرنڈ ،قلعہ بارل اور منگ( نے مقامی قبائل(خصوصاً سدھن) پر نظر رکھنے کے لیے بنائے۔گلاب سنگھ نے کشمیریوں خاص کر سدھن قبیلہ کے خلاف انتہا کاظلم کیا ۔ہزاروں کی قلم کی ہوئی گردنوں کے پلندری کے مقام پر انبار لگائے گئے۔ معززین کی کھالیں کھینچ کر ان میں بھوسہ بھراگیا تاکہ عوام پرڈوگروں کی ہیبت طاری رہے۔لیکن وہ شاید اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ظلم جب حد کو کراس کرتا ہے تو بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔اس ظلم کے خلاف ہونے والی مزاحمت کے نتیجے میں بیگار کی سختیوں میں نرمی آئی تیرنی ٹیکس اور دوسرے ٹیکسوں میں رعایت دی جانے لگی۔اسی طرح حقِ ملکیت مستحکم ہوا اور جنگلات کے درختوں کے استعمال کی اجازت ملی۔قلعے کی موجودہ شکستگی اس جبر اور رعونت کی موت ہے جو ڈوگروں نے نہتے عوام پر روا رکھا۔

تاریخ سدھنوں کی سرکشی سے بھری ہوئی ہے۔اس بے بہا جذبے کو جب کرنل محمد خان چھے چھن نے اپنی حکمت اور فراست سے تنظیمی شکل دی تو ڈوگرا راج لرز اٹھا۔ ان پر قابو پانے کے لیے دریا کے دھانے بہت سے قلعے تعمیر کیے گئے۔سدھنوں کی تعلیم و تنظیم پر جو کام کیا وہ ایک تاریخ ہے۔ تحریک آزادی کشمیر کے ضمن میں آپ کے کردار کا تجزیہ کیا جائے تو آپ کی حکمت اور فراست کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔تعلیمی اور سماجی منصوبوں کے علاوہ آپ نے مجاہدین کی خوراک کی کے لیے مٹھی آٹا سکیم کا اجرا کیااورانہیں ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے وسائل مہیا کیے۔چھے چھن، پانہ، پنجاڑ اور راول پنڈی میں آپ کے معتبر اور پر اعتماد لوگوں سے رابطے تھے۔ رائفلیں اور دیگر ہتھیار ان محفوظ ہاتھوں سے ہوتے ہوئے ہلاڑ اور آزاد پتن کے درمیان کسی محفوظ جگہ سے موقع محل کی مناسبت سے کشتیوں، تیراکوں یا لکڑیوں کے گھٹے بنا کر دریا پار کرائے جاتے تھے۔ اکثر اس کے لیے ’’پانہ ‘‘کا علاقہ استعمال کیا جاتا تھا۔تقسیمِ ہندکے کچھ ہی ماہ بعد قلعہ آئن صوبیدار باروخان شہیدکی قیادت میں فتح ہواتب سے قلعے کے استعمال کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اس طرح گزشتہ 65 سال سے یہ ویران پڑا ہے۔

قلعہ شکستہ حالت میں ہے۔ قلعے کی فصیل میں دراڑیں نمایاں ہیں۔اس کا مرکزی دروازہ دریا برد ہو چکا ہے۔قلعہ تک ’’پونا ‘‘کا پل بھی استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ٹریک مشکل اورفاصلہ زیادہ ہے۔جو لوگ مشکل ہائیک کے عادی نہ ہوں وہ سہنسہ کے مغرب میں’’ قلعہ بھیرنڈ‘‘دیکھنے جا سکتے ہیں۔ پنڈی کوٹلی روڈ سے 2 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔یہ بھی پہاڑی کی چوٹی پر ہے۔دونوں کی رقبہ اورطرزِ تعمیر تقریبا ایک جیساہے۔ یہ قلعہ نسبتاً بہتر حالت میں ہے۔

قلعہ تین اطراف سے تند ہواوں کی زد میں ہے۔اس کا اندازہ قلعے کی شکستہ فصیل کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ قلعے کے دو دروازے تھے۔قلعہ کا مرکزی حصہ دریا کے کنارے تک پختہ تھا ۔ دریاکی تندو تیز طغیانیوں کی وجہ سے اس کایہ حصہ دریا برد ہو چکا ہے۔لیکن آثار واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ بائیں طرف کا دروازہ بھی موجود نہیں۔ یہ حصہ جزوی منہدم ہو چکا ہے اور بقیہ بو سیدہ ہے۔ قلعہ چھوٹا ہونے کے باوجود حسن تعمیر و ترتیب رکھتا تھا ۔قلعے کے اندر کی کل تعمیرات منہدم ہو چکی ہیں۔ زیر زمین تہہ خانوں کا نام و نشان نہیں اور ان میں مٹی بھر چکی ہے ۔قلعہ تین حصوں میں تقسیم ہے ۔مگر اب اسے پتھروں کا قبرستان کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔

زندہ قومیں آثارِ قدیمہ کی حفاظت کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں ان آثار کی حفاظت کا کچھ خاص اہتمام نہیں کیا جاتا ۔پتھروں کا بنا ہوا اس قلعے کاآخری سانسیں لیتا ہوا ڈھانچہ کسی تیز ہوا کے جھونکے کا منتظر ہے۔

آزاد پتن

0 تبصرے

 




کشمیر کو جنت نظیر بنانے میں اس کی برفیلی چوٹیوں، پرجوش چشموں، پرشور جھرنوں، پرشباب آبشاروں، پرسکون جھیلوں اور پرنشاط دریاؤں کا بہت دخل ہے۔ اس لیے پنڈت کلہن نے تاریخِ کشمیر پر اپنی کتاب کا نام دریاؤں کا راجہ (راج ترنگنی) رکھا۔ ان دریاؤں میں سے ایک دریائے جہلم ہے۔ جس کی مشہور گزرگاہوں میں ایک آزاد پتن ہے۔

دریائے جہلم مری کہوٹہ اور پونچھ کے متوازی پہاڑی سلسلوں کے درمیان رواں ہے جنہیں ایک پائیدار پل نے ملایا ہوا ہے۔ یہاں اس کشمیر کا نظارہ تو نہیں کیا جا سکتا جسے جنت کا ٹکڑا، دلہن کا گہنا، زمرد کا نگینہ اورنئے عہد کا گلوب کہا گیا ہے لیکن اس کے کچھ قابلِ دید مقامات راولاکوٹ، بن جوسہ، تولی پیر اور حاجی پیر کا دروازہ ضرور ہے۔

کہوٹہ اور راولاکوٹ کے درمیان واقع یہ پتن ''شیردریا'' کے ہنڈ اور نیلاب پتنوں جیسا نہیں ہے کہ اس پر کوئی ڈاکومنٹری بنتی، کسی فلم کا سین فلمایا جاتا، کوئی آرٹیکل لکھا جاتا یا کوئی رضا علی عابدی ہوا کے دوش پر اسے دنیا سے متعارف کراتا۔

نہ یہاں سے کوئی سکندر گزرا ہے کہ اس کی یادگار کے طور پر کوئی پتن مینار (رحیم یار خان) تعمیر کیا جاتا جو دو ہزار سے زائد سال بعد بھی قائم رہتا۔ سکندر کو یہاں آنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ پونچھ کا راجہ ابیسارس سکندر کے ٹیکسلا دربار میں اطاعت گزار راجہ امبھی کے پہلو میں جا بیٹھا تھا۔

سکندر تو کیا یہاں سے کسی سیاح، پنڈت، بھکشو، سنت اور پادری کے گزرنے کا کوئی نشان بھی نہیں ملا۔ البتہ ایک صوفی حضرت بری امام کی کہوٹہ اور دھیر کوٹ میں نشست گاہیں موجود ہیں۔

یہ پتن پنجاب اور پونچھ کا سنگم ہے۔ پونچھ کبھی ریاست تھا پھر جاگیر بنا اور اب ڈویژن ہے۔ آزاد پتن اس کے ضلع سدھنوتی میں ہے۔ اسی پونچھ میں لوہ کوٹ کا قلعہ تھا جس پر محمود غزنوی نے دو مرتبہ حملہ کیا لیکن راستہ مختلف تھا۔

یہاں سے کوئی حملہ آور ہوا تو وہ مہاراجہ گلاب سنگھ تھا۔ بیس کلومیٹر کے فاصلے پر منگ میں 1932 کے ان شہدا کی یادگار ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ راجہ گلاب سنگھ نے ان کی زندہ کھالیں اتروائیں۔

سن سنتالیس میں یہاں سے ریاست پر قبائلی یلغار ہوئی۔ ڈوگرہ حکومت نے پل کی کشتیاں توڑ کر کئی حملہ آوروں کی لاشوں سمیت دریا میں بہا دیں۔ لیکن ''لچھمن پتن'' آزاد ہو گیا۔ اس عمل میں کرنل خان محمد خان کا بہت دخل ہے۔ برٹش آرمی میں ان کی شجاعت کے صلے میں انگریز ریذیڈنٹ نے 1926 راولاکوٹ سے آزاد پتن تک روڈ اور پتن پر کشتیوں کا پل تعمیر کروایا۔ اس سے پہلے 1920 میں پتن پلندری روڈ کی تعمیر ہوئی۔

پنڈی گزیٹئیر دریا کے ساتھ ساتھ کوہالہ تا دھان گلی ''بالز روڈ'' کا ذکر بھی کرتا ہے۔ یہ پونی ٹریک اب بے نشان ہو چکا ہے۔ البتہ کوہالہ تا سالگراں پہاڑی سلسلے میں انگریز دور کے فارسٹ ریسٹ ہاوسز اب بھی زیرِ استعمال ہیں۔

سامنے پونچھ کے پہاڑی سلسلے میں ڈوگرہ دور کے کچھ چھوٹے قلعے موجود ہیں۔ آزاد پتن سے قریب ترین قلعہ آئن ہے۔ اگر دم ہو تو دریا پار موضع پانہ سے دو اڑھائی گھنٹے کی ہائیک ہے۔ یہ آبی چوکی تو شکستہ ہے لیکن اس کی کشادہ فصیل پر بیٹھ کر گہری خاموشیوں سے روح سرشار اور دریا کے لافانی نظارے سے آنکھیں ٹھنڈی کی جا سکتی ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد پتن سے کہوٹہ تک سڑک تعمیر کی گئی۔ لیکن تب سے سڑک لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں ہے۔ کٹی پھٹی پہاڑیاں منظر کے حسن کو گہنا رہی ہیں۔ یہ پہاڑیاں بے حیات تو نہیں لیکن اتنی با رونق بھی نہیں ہیں کہ انسان دیکھتا ہی رہ جائے۔

لینڈ سلائیڈنگ کے باعث یہاں اب تک کوئی پکنک سپاٹ نہیں بن سکا۔ کوئی ٹیولپ، ریورویو یا کنارا ہوٹل نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی فش شاپ ہے۔ البتہ ڈرائیور ہوٹل اور سڑک کنارے پکوڑے موجود ہیں۔

اگر آپ دریا کے دھانے جانا چاہتے ہیں تو پتن پل سے رسّوں کا معلق پل (گراری پل) کے درمیان کسی موزوں جگہ کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ لیکن تھوڑی احتیاط کی ضرورت ہے کہ پاٹ کم، دریا گہرا، بہاؤ شدید اور پانی ٹھنڈا ہے۔

کہتے ہیں کہ کبھی سری نگر کے پاس جہلم کے امرت پانیوں میں برف کی سلیں تیرتی پھرتی تھیں۔ اس لیے قیاس کیا جاتا ہے کہ ''جہلم'' جل (پانی) اور ہم (برف) کا مرکب ہے۔ اس کی ٹھنڈک کی صفت تو اب بھی برقرار ہے لیکن پانی گدلا چکا ہے۔

جہلم جب جھوم کے اٹھتا ہے تو ہر چیز اپنے لپیٹے میں لے لیتا ہے۔ 1992 میں آزاد پتن کا پل بھی ساتھ لے گیا۔ نیا پل زیادہ پائیدار اور پرکشش ہے۔ اسی قسم کے پل کوہالہ، ٹائیں ڈھلکوٹ، ہلاڑ اور دھان گلی میں بھی بنائے گئے۔

اگر آپ دریا کا فضائی نظارہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پنج پیر (نڑ) یا پلندری کی طرف جانا ہو گا۔ جہاں سے دریا آج بھی وشنو کے ترشول کی چوڑائی کے برابر دکھائی دیتا ہے۔ اگر کچھ اور اوپر سے دیکھیں تو یہ یقیناً شہ رگ کی مانند دکھائی دے گا۔

آزاد پتن سے مغرب کی سمت آسمان کی طرف دیکھیں تو پنج پیر کی چٹانیں سینے تانے کھڑی ہیں۔ پنج پیر کی سطح سمندر سے بلندی 6076 فٹ جب کہ آزاد پتن کی 1587 فٹ بلند ہے۔

پل کے دائیں طرف بل کھاتا ہوا راستہ پلندری کی طرف نکلتا ہے۔ 23 کلومیٹر کے فاصلے پر یہ پُرفضا ہل سٹیشن کبھی پونچھ سے پنجاب جانے والے اعلی ریاستی اہلکاروں کا بلند ترین پڑاو ہوا کرتا تھا۔ کشمیر تقسیم ہوا تو آزاد جموں کشمیر کا پہلا دارالحکومت یہیں جنجال ہلز میں قائم ہوا۔

کہتے ہیں کہ غریب پونچھی پنجاب جانے والی سکھ بیگمات کو راولاکوٹ سے پالکی میں اٹھاتے اور یہاں لاتے۔ آگے کا سفر اونٹوں اور ڈاچیوں پر ہوتا۔ کیوں کہ اس علاقے میں دریا آمد و رفت کے لیے موزوں نہیں ہے۔

کبھی یہ دریا لکڑی کی نقل و حمل کا بہترین ذریعہ تھا۔ کشمیر کی اعلی معیار کی لکڑی جہلم پتن پر اترا کرتی تھی۔ تب دریا کا نام وتستا یا بتستا تھا۔ جہلم پتن کے نام کو اتنی پذیرائی ملی کہ یہ نام پانی کے مخالف سفر کرتا ویری ناگ تک جا پہنچا۔

انگریز دور میں اس پتن پر فیری سروس بھی میسر تھی۔ فیریز کی کل تعداد تین تھی۔ مناسب فاصلوں پر فیری گھاٹ تھے۔ گزئیٹیر اس علاقے میں رام پتن کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔

آزاد پتن سے سات کلومیٹر اوپر آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور پتن شیرخان پل کی تعمیر کے منصوبے زیرِ غور ہیں۔ 35 کلومیٹر کے فاصلے پر نیچے کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔

کشمیر کے اس سنگلاخ کونے سے اب شاعری کے چشمے پھوٹنے لگے ہیں۔ پلندری، تراڑکھل، منگ اور پلائے سے شاعروں کی ایک کھیپ نکل آئی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر یومِ آزادی کے حوالے سے کسی مشاعرے کا اہتمام آزاد پتن میں کیا جائے۔

پوٹھوہاری لوک کہانیاں سید آلِ عمران

0 تبصرے

 



تفریح انسانی فطرت ہے۔ انٹرنیٹ سے پہلے کے سفر پر نظر دوڑائیں تو تفریح کے مواقع بتدریج کم ہوتے چلے جاتے ہیں اور آپ افسانے، ناول اور داستان سے ہوتے ہوئے کہانی کے پراسرار مگر سنہرے غار میں داخل ہو جاتے ہیں۔ تمام نثری بلکہ شعری ادب کا سفر کہانی کے اسی پراسرار غار سے شروع ہوتا ہے۔

لوک کہانی کی اپنی کہانی سال ہا سال کی تحقیق کے باوجود آج تک ٹھیک سے بیان نہیں ہو سکی۔ اس لیے یہ بتانا مشکل ہے کہ لوک کہانی کا سفر کب اور کہاں سے شروع ہوا اور ہم تک کن مراحل سے گزر کر پہنچا۔

یہ کہا جاتا ہے کہ انسان کی فرصتوں کا دور کہانی کا دور ہے۔ حجروں اور بیٹھکوں کو کہانیاں اٹھائے رکھتی تھیں۔ یہ بات بجا سہی لیکن دور فرصتوں سے پہلے کا ہو یا بعد کا کہانی سے عبارت ہے۔ وید، صحائف، آسمانی کتب اس پر شاہد ہیں۔ کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں کہانی کا چلن نہ رہا ہو۔البتہ کچھ علاقے ایسے ضرور ہیں جن کے لوک ادب خصوصاً نثری لوک ادب پر کام نہیں ہوا۔ ان میں سے پوٹھوہار ایک ہے۔

پوٹھوہار کبھی علم و ادب کا مرکز تھا۔ دنیا کی پہلی یونیورسٹی کا اعزاز پوٹھوہار کو ملا۔ جس سے پانینی اور چانکیہ جیسے عالی دماغ وابستہ رہے ہیں۔ روشن دماغی کے ساتھ ساتھ روشن ضمیری بھی پوٹھوہار کی پہچان رہی ہے۔ جس کی ایک مثال میاں محمد بخش کی سیف الملوک ہے۔ لیکن اٹھارویں صدی میں عالمی سامراج نے پوٹھوہار پر اپنی حریصانہ نگاہیں گاڑ لیں۔ پہلے گوروں نے عالم گیر جنگوں میں جھونکنے کے لیے پوٹھوہاریوں کو مارشلز کا خطاب دیا۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ لوگوں میں نفرت کی دراڑیں ڈالنے کے لیے پوٹھوہار کے شجاع مگر بھولے باسیوں میں نفرت کا زہر بھرا گیا۔ یوں تقسیم سے پہلے ہی پوٹھوہار میں خونی فسادات ہوئے اور یہاں کے ہندو اور سکھ ہجرت کر گئے۔ چونکہ یہ پوٹھوہار کی پڑھی لکھی آبادی تھی اس لیے تہذیبی امانتیں بھی یہاں سے ہجرت کر گئیں۔

یہ دراڑیں اتنی گہری تھیں کہ تاریخ، جغرافیہ اور رسمِ خط تک جدا ہو گئے۔ پاکستان میں لوک گیتوں پر تو کام ہوا لیکن پوٹھوہاری لوک کہانیوں کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔ اردو اور پوٹھوہاری شاعر علی ارمان کی معرفت ان کہانیوں تک رسائی حاصل کی اور طبیعت کی خرابی کے باوجود انہیں پوٹھوہاری میں یوں منتقل کیا کہ بھولی بسری سنہری دنیاؤں کے در کھول دیے۔

لوک کہانیوں کو سمجھنے کے لئے اس علاقے کے رسم و رواج، تاریخ و ثقافت، سماج اور مذہب کو سمجھنا پڑتا ہے۔ اس لیے سید آلِ عمران نے اس کتاب میں ''پوٹھوہار کہانی'' کے عنوان سے ایک مضمون شامل کیا ہوا ہے۔ جس میں سرزمینِ پوٹھوہار کی سینکڑوں سالوں پر محیط معلوم تاریخ کا احاطہ کیا ہے۔

اس کتاب میں چھ کہانیاں شامل ہیں۔ لالچ، پتال نا شہزادہ، اناراں بادشاہزادی، بلی تے بوہٹی، پوٹھوہار کہانی، ڈھول راجا اور شمس رانی اور راجہ رسالو۔ ان کہانیوں کی بنیاد سچائی اور انسان دوستی ہوتی ہے۔ انسان ازل سے خیر کا متلاشی رہا ہے۔ یہ کہانیاں بھی اعلی اخلاقیات کا درس دیتی ہیں۔

معتبر اشاعتی ادارے رومیل پبلشرز راولپنڈی کی شائع کردہ پوٹھوہاری کہانیاں پڑھ کر خیال سعادت حسن منٹو کے اس قول کی طرف جاتا ہے کہ پوٹھوہاری کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی آم کی گٹھلی چوس رہا ہو۔

پوٹھوہار میں فن ِ شعر خوانی قمر محمود عبداللہ

0 تبصرے


پنجاب و پختون خواہ میں گھرا پوٹھوہار اپنی تمام تر بے ترتیبی کے باوجود ہمیشہ پرکشش رہا ہے۔ بات قبل مسیح کی ہو یا ما قبل تاریخ کی، پوٹھوہار گندہار اور سواں کی صورت کرّے میں جھلملاتا دکھائی دیتا ہے۔

پوٹھوہار میں کبھی پتھر اٹھانے کا شغل عام تھا۔ نوجوان شام کو ایک جھٹکے میں بھاری پتھر شانے تک اٹھا لیتے تھے۔ پتھر اٹھانے کا یہ شغل تو تمام ہوا لیکن پوٹھوہاریوں کی بھاری پتھروں پر ہاتھ ڈالنے کی عادت نہیں گئی۔ قمر عبداللہ کو دیکھئے تصوف، تاریخ اور ادب کے بعد ثقافت کا بھاری پتھرکس نفاست سے اٹھا لیا ہے۔قمر نے شاعروں کا جو ہالا کھینچا اور شعر خوانوں کی جو دھنک سجائی ہے اس پر وہ بلاشبہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ یقیناً اس کام میں گنجائشیں ہوں گی لیکن اوّلیت کا اپنا نشہ ہوتا ہے۔

ایسے میں جب گلوبلائزیشن نے چھوٹی اکائیوں کے لیے اپنی شناخت برقرار رکھنا مشکل بنا دیا ہے،قمر عبداللہ کی اپنے ثقافتی نگینے پھرولنے اور پرونے کی یہ کاوش قابل صد ستائش ہے۔ مٹی سے محبت کی اس منفرد کاوش پر پوٹھوہار یونیورسٹی اپنی پہلی اعزازی سند اس 'مردِ کوہستان' کو فخریہ طور پر دان کرسکتی ہے۔


 حبیب گوہر

 

منگل، 7 دسمبر، 2021

صفر نامہ ۔ بشیر مراد

0 تبصرے

وہ کشمیر جسے جنت نظیر کہتے ہیں اس کا ایک ٹکڑا نیلم کہلاتا ہے۔ ودیا گیان کے اسی پراچین استھان سے جناب بشیر مراد کے آبا کا تعلق ہے اور یہی ان کے صفر نامے کا زیرو پوائنٹ ہے۔لفظ 'صفر نامہ' میری سماعتوں سے پہلی بار ٹکرایا تو خیال گزرا کہ مسافر پر عمررواں کی رائیگانی کا احساس غالب آ گیا ہو گا، پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگا ہو گا، کسی نگر سے بے آبرو ہو کر نکلا ہو گا، کسی آنکھ میں ڈوب گیا ہو گا، کسی زلف کا اسیر ہو گیا ہو گا یا ہم سفر گریز پا نکلا ہو گا۔ لیکن صفر نامہ پڑھا تو اپنی بد گمانیوں پر شرمندگی ہوئی کہ صفر نامہ ایک تخلیق کار مسافر کی سفر کے بعد سفر میں رہنے والی کیفیت کا عنوان ہے۔  فسوں کار مصنف نے نام سے چھتہ ہی نہیں چھیڑا،  چھتے سے شہد بھی بڑی مہارت سے کشید کیا ہے۔ 

صفر نامہ پر پہلی نظر پڑی تو میں اس شش و پنج میں پڑ گیا کہ یہ لفظ صفْر ہے یا صفَر؟ ایک میں ٹھہر ٹھہراؤ ہے اور دوسرے میں چل چلاؤ۔ یہ دونوں صفات صفر نامہ میں موجود ہیں۔ کہیں تو قاری علم و انشا کے نیلم میں تنکے کی طرح بہتا چلا جاتا ہے اور کہیں افکار کے بھنور میں ڈبکیاں کھانے لگتا ہے۔

صفر نامہ کے سرورق پر سفری مزاح لکھا ہوا ہے۔ لیکن یہ مزاح گدگدی کی بجائے سرخوشی پیدا کرتا ہے۔ بشیر مراد لفظوں سے اس طرح کھیلے ہیں اور ایسی ایسی تراکیب وضع کی ہیں کہ بے اختیار مشتاق احمد یوسفی یاد آتے ہیں۔ اس لیے اسے  کنڈورا سے خنجراب تک کی علمی، ادبی، تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی دستاویز کہا جائے تو غلط  نہ ہو گا۔ فردوسِ بریں کو شش بہشت میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ٹورسٹ جو سفر کچھ دنوں میں طے کر لیتے ہیں، صفر نامہ کے مبشر اور بامراد مسافر نے سالوں میں طے کیا ہے۔ ذوقِ دید ہو تو ہر جا جہان دیگر ہے۔ بشیر مراد کی نظر منظر کا ہشت پہلوی مشاہدہ کرتی ہے۔ نظارہ احساس کی دھنک رنگ آمیزش سے تحیّر خیز ہو جاتا ہے۔ یہی پُر شکوہ تخلیقی شگفتہ بیانی بشیر مراد کی شناخت ہے۔

بشیر مراد پر خوش نصیبی فریفتہ ہے۔ شکل، قامت، لباس، آواز اور ادا کے ساتھ ساتھ صاحبِ طرز خوش بیان بھی ہیں۔ لفظ کو صوت اور صوت کو صورت میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اس جادوئی منظر کشی نے سفر نامے کو البم بنا دیا ہے۔ صفحہ صفحہ شش بہشت کی دلکشی، شادابی اور خوشبو سے لبریز ہے۔

صفر نامہ آپ اپنی مرضی سے نہیں پڑھ سکتے۔ جگہ جگہ آپ کو رکنا پڑتا ہے۔ خصوصاً شگفتہ بیان جب قلم کو نشتر بناتا ہے تو کھکھڑی کی کاش میں تمّے کی تلخی در آتی ہے۔ مجھے صفر نامہ پڑھ کر پتا چلا کہ ع ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم چلے جانا، آفتاب مضطر کا کلام ہے۔ میں اب تک نادم ہوں کہ میں نے شاعر کا نام جاننے کی جستجو نہیں کی۔

بشیر مراد مبارک باد کے مستحق ہیں کی 'بے ادبیاں' نصاب میں شامل کر لی گئیں۔ لیکن لگتا ہے کہ صفر نامہ کو نصابی کتاب بنانے میں انہیں دلچسپی نہیں ہے۔ علامہ کے مشہور شعر کی تحریف اس کے مضمرات سے بے نیاز ہو کر یوں کرتے ہیں ؎

ایک ہی بیڈ پہ پڑے سو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

صفر نامہ اختصار کا مرقع ہے۔ شگفتہ نگار نے کوزے میں نیلم، جہلم، پونچھ اور سندھ  کے سارے صدف بھر دیے ہیں۔ فقیر ذوالفقار علی اسد سے لے کر پیر سید معراج جامی تک کسی ہم سفر کو نہیں چھوڑا ۔۔۔ لیکن یہ ذکر اتنا برجستہ اور برمحل ہے کہ مصنف مرصع کار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ  لفظ  تراشنے اور ان سے جملے کی مالائیں پرونے کا گر جانتے ہیں۔ اس لیے صفر نامے پر سلکِ گوہر کا گماں گزرتا ہے۔


نور نہایا رستہ کا ' سیف الملوکی آہنگ '

0 تبصرے

 

قصہ گوؤں نے الف لیلوی سلسلے کی مقبولیت دیکھ کر گیارہویں صدی میں ایک اور عشقیہ داستان سیف الملوک اور بدیع الجمال کے نام سے گھڑی، جسے انیسویں صدی میں کھڑی کے ایک صاحبِ عرفان نے آسمان کر دیا۔

چک ٹھاکرہ کا محمد بخش بکریاں چرانے کا آبائی معمولی چھوڑ کر جموں کے ویرانوں اور چناب کے دھانوں پر مجاہدوں میں ایسے مصروف ہوا کہ من کے موتی کو جا لیا۔ اس سُچے فقیر نے ایک پری پیکر سے مصری  شہ زاد کے سفر العشق کو یوں نظم کیا کہ اس پر الہام کا گمان گزرنے لگا۔ اس سے پہلے یہ فارسی داستان سرائیکی، پنجابی اور دکنی میں نظم ہو چکی تھی۔ لیکن میاں محمد بخش نے پنجابی کے پہاڑی لہجوں پہاڑی، ڈوگری، پوٹھوہاری اور ہندکو سے رس نچوڑ کر وہ شفا بخش لہجہ تشکیل دیا جس کی  گزشتہ سوا صدی سے جہلم و سندھ کے بیچ حکمرانی ہے۔

اس ملکوتی آہنگ میں اردو پنجابی کے ایک جلیل القدر اور عالی مرتبت شاعر جلیل عالی نے ایک نعتیہ مجموعہ 'نور نہایا رستہ' تشکیل دیا جو پچھلے سال سیرت ایوارڈ کا حقدار ٹھہرا۔

اردو اور سیف الملوکی پنجابی کے لسانی اور صوتی اختلاط سے جنم لینے والے اس رسیلے آہنگ کو امین راحت چغتائی نے سیف الملوکی آہنگ کا نام دیا ہے۔ اس آہنگ نے اردو کے لسانی گل دستے میں ایک اور سجل پھول ٹانک دیا ہے۔ پہلے پنجابی صنف وار کے آہنگ کو دل کشاد اردو نے کھلے بازؤں گلے لگایا۔ اب سیف الملوک کی لے اہلِ درد کو لوٹ رہی ہے۔

'نور نہایا رستہ' نعت کے علاوہ حمد، منقبت اور سلام پر مشتمل ہے۔ سیف الملوکی آہنگ میں صرف ایک نعتیہ غزل اور ایک نعتیہ نظم ہے۔ غزل میں سات جب کہ نظم میں سو شعر ہیں۔ نعت اور سیرت کے بیان کی یک جائی نے اس نظم کو اس کتاب کا دل بنا دیا ہے۔ نعت کے مضمون میں سیرت کے ستارے کی جگ مگاہٹ بہ قول حمید شاہد عالی بخت کو ہی مل سکتی ہے۔

نور نہایا رستہ 2018 میں منظرِ عام پر آئی لیکن جلیل عالی نصف صدی سے اسی  سیدھے رستے کے راہی ہیں۔ اب تو انہوں نے رحمت کے دریا کو جا لیا ہے اور نعتوں کی مشکیں بھرنا شروع کر دی ہیں۔ لیکن یہ سب اتنی آسانی سے نہیں ہو گیا۔ اس دوران طوفان اٹھتے اور گمان بھنور بنتے رہے لیکن ان کے دل پہ لکھا اسمِ عالیؐ پناہیں فراہم کرتا رہا۔ 

دنیا کیا تسخیرے مجھ کو

شوق ترا تعمیرے مجھ کو

تیرے دھیان کے اپنے موسم

کیسے وقت اسیرے مجھ کو

نور نہایا رستہ کے خود فراموش آہنگ سے قاری کا دھیان انشااللہ خان انشا، جارج گریرسن، حافظ محمود شیرانی اور جمیل جالبی کے اردو  کے پنجابی پن، جنم استھان اور پالن ہار کی طرف جاتا ہے۔ خصوصاً میاں محمد بخش کی پوٹھوہاری پنجابی اردو کے زیادہ قریب ہے۔ شق القمر کا بیان دیکھیے ؎

چاند حضور کا چاکر، رخ پر خدمت کر پروانہ

اپنا بدن دو ٹکڑے کر کے پیش کیا نذرانہ

جو زندہ لوگ مردِ مومن کے معیار پر پورے اترتے ہیں جلیل عالی ان میں نمایاں ترین ہیں۔ اقبالیت کے ساتھ ساتھ  سیف الملوکیت بھی فکری اٹھان کا تقاضا کرتی ہے؎

ہر بیتے وچہ رمز فقر دی جے تدھ سمجھ اندر دی

گل سُنا محمد بخشا عاشق تے دلبر دی

عشق بور کو نور، پتھر کو پارس اور سونے کو کندن بنا دیتا ہے۔ تازہ تر تخلیق کے لیے ماہ و سال کی قید نہیں رہتی۔ تخلیق کی  شاخ سے نو بہ نو کونپلیں عمر بھر  پھوٹتی رہتی ہیں۔

'سفر العشق' نے حرفِ جار کے اضافی بار کو کم کر دیا ہے۔ دھیان سفر کا جلیل راہی  نور نہائی سطروں پر لفظوں کے سجرے ستارے ٹانکتا شوق بہشتوں کی طرف رواں دواں ہے۔ وہ سوچ تھلوں کے گھور اندھیروں سے نکلتا، چپ صحراؤں سے گزرتا، نجف کربلا کی زیارت کرتا، مکہ مدینہ پہنچ جاتا ہے۔

خواب دریچہ، شوق ستارہ، عرضِ ہنر سے آگے پر ملنے والے امتیازی تمغے، ادبی ایوار، اعترافیہ وثیقے اور تخلیقی تسلسل پر سخن سازوں کی مسلسل پذیرائیاں اپنی جگہ اہم سہی لیکن نور نہائے رستے پر ملنے والا سیرت ایوارڈ ان سب سے بڑھ کر ہے۔ اس کا حصول اتنا آسان نہیں کہ اس کے لیے چودھراہٹ کے شملوں سے وجود کی گرد جھاڑنی پڑتی ہے۔

نور نہائے رستے میں لفظوں کے ستارے اس حسن سے ٹانکے گئے ہیں کہ دو چار قدم چلیں تو سبز گنبد کی جگ مگاہٹ خاکی وجود کو نور سے نہلا دیتی ہے۔ قاری مدینے کی گلیوں کا ناظر بن جاتا ہے۔ آنکھ کے رستے دل  کو نور سے نہلاتا چلا جاتا ہے۔ اگر وہاں سے اٹھتا ہے تو ایک حجرے کے در سے سماعتوں میں نور گھلتا ہے۔ تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ کان خلق رسول القرآن ؎

اک صورتِ تعمیر جو جھلکی سرِ قرآں

 روشن ہوئی مینارہِ سیرت سے زیادہ

'نور نہایا رستہ' نے گویا  حضورِ حق ان کی باریابی کی بھی توثیق کر دی ہے۔ زندہ لوگوں پر نگاہ کی جائے تو جن عالی مرتبت اور جلیل القدر ہستیوں پر نظر ٹھہرتی ہے جلیل عالی ان میں نمایان ترین ہیں۔ 

سخن درد انگیز ہو تو انمول ہوتا ہے۔ کتاب کھولی تو لکھا تھا کہ اس  کی کوئی قیمت نہیں۔ کتاب ختم کی  تو پلکوں پہ جگ مگ موتی  کہہ رہے تھے کہ  درد کی قیمت ادا بھی نہیں کی جا سکتی؎

یہ نعت کا اعجاز ہے لکھتے ہیں تو خود ہی

بنتی ہے کوئی بات عبارت سے زیادہ

 



نقشِ اوّلین

0 تبصرے

سبزہ زاروں، لالہ زاروں اور زعفران زاروں کی سر زمین کشمیر کہلاتی ہے۔ آکاش کو چُھوتی چوٹیاں، رومان پرور وادیاں، ہوش ربا آبشاریں، جادوئی جھرنے، راج دریا، خوش نوا پرندے؛ بلا شبہ کشمیر جنت نظیر ہے۔ لیکن قدرتی حسن کشمیر کا واحد حوالہ نہیں ہے۔ یہ وادی اساطیری دور سے تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہے۔ ادب کو اساطیر سے نکالنے کا سہرا بھی اہلِ کشمیر کے سر ہے۔ کشمیر ایرانِ صغیر بنا تو یہاں غزل آئی۔ مغلوں نے اسے نگین، نشاط اور نسیم ایسے باغوں، خوش نظر پھولوں اور سر کشید چناروں کے ساتھ ساتھ مشاعرے سے آشنا کیا۔

آزاد کشمیر  کے حصے میں جنت کا جو ٹکڑا آیا ہے اسے  نیلم کہتے ہیں۔ جہاں صدیاں گیانیوں کو نروان اور پنڈتوں کو عرفان ملتا رہا ہے۔ چین اور وسط ایشیا تک سے لوگ ودیا، شانتی اور شکتی کے لیے براستہ مظفر آباد شاردا آتے رہے ہیں۔ آج بھی یہ عمودی پٹی تخلیق کاروں سے اٹی ہوئی ہے۔ یہ سلسلہ فرہاد احمد فگار سے احمد عطااللہ تک پھیلا ہوا ہے۔

فرہاد کا تعلق مظفرآباد سے ہے۔ ویسے تو ان کی شخصیت کے کئی ایک پہلو ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر آپ محقق ہیں۔ ادبی اور لسانی تحقیق کی بازی لگی ہو تو بےخطر کود پڑتے ہیں۔ اگر تلفظ غلط ہو تو درستی ان پر فرض ہو جاتی ہے، شعر کسی اور سے منسوب کر دیا جائے تو فوراً آستینیں چڑھا لیتے ہیں۔ اگر پرائے مال پر کوئی ہاتھ صاف کر دے تو مالِ مسروقہ کی برآمدگی  اور اسے اصل مالکان تک پہنچائے بغیر دم نہیں لیتے۔  

بدقسمتی سے تحقیق کا دشت جنوں خیزوں سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔ تحقیق کے دریا کو گوگل کی ٹنل سے کراس کر لیا جاتا ہے۔ ٹرن اٹ ان کی ٹلی بجتی ہے نہ ایچ ای سی کی آنکھ کھلتی ہے۔ اس ماحول میں فرہاد ایسے تیشہ بہ دست کا دم غنیمت ہے۔ جو اب ''اردو میں املا اور تلفظ کے بنیادی مباحث'' کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہے ہیں۔ سندی تحقیق کے لیے اس  کوہِ بے ستوں کا  انتخاب ان کی فرہاد حوصلگی کا مظہر ہے۔

فرہاد کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں بہترین اساتذہ ملے۔ اس مقالے کا داخلی اور خارجی حسن ڈاکٹر نعیم مظہر کا رہینِ منت ہے۔ جن کی چشمِ نگراں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے درجنوں فگاروں کو فرہاد بنا چکی ہے۔

فرہاد سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب وہ نمل اسلام آباد سے ایم اے کر چکے تھے۔ بعدازاں یہیں سے ایم فل کیااوراب یہیں سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ فگار جسم کا روزانہ مظفر آباد پڑھا کر اسلام آباد پڑھنے جانا جُرأتِ رِندانہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پی ایچ ڈی اسکالرز اپنے  ایم اے  کے مقالوں میں گنجائشیں خود ہی بھانپ لیتے ہیں اور انھیں چُھپاتے پھرتے ہیں۔ لیکن فرہاد اسے ہو بہو چَھاپنے پر تلے بیٹھے ہیں۔

اگر تحقیق ''حسن'' کی تلاش کا نام ہے تو مقالہ نگار کو گلشنِ کشمیر کے خوش رنگ پھول احمد عطا اللہ کے انتخاب پر داد دینی چاہیے۔ غزل اور عطا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں حسن میں ڈھلے ہیں۔ بلاشبہ احمد عطا اللہ ایک کھلی کتاب ہیں لیکن ان کی فکر کے کچھ  ریشے ریشم سے زیادہ لطیف ہیں ۔۔۔ انھوں نے جس طرح مجاز کو منکشف اور گاؤں کو گلوریفائی کیا ہے، اس پر مستقل مقالے لکھے جانے چاہیے۔ اس جمال دوست نے  غزل کے لیے دل کا در اس طرح کھولا ہے کہ انہیں بھول جانا کسی کے بس میں نہیں۔ وہ ہمیشہ عکسِ خوشبو کی طرح رہیں گے۔ ان کا والہانہ پن فگار جانوں اور فشار جسموں سے خراجِ عقیدت وصول کرتا رہے گا۔

تحقیق فرہاد کی شیریں ہے۔ اس تک پہنچے کے لیے اس نے  اپنے فگار جسم سے مسائل کا کوۂ چناس ہی نہیں کاٹا، نیلم جہلم بھی پاٹا ہے۔ ''دومیل'' سے سفر آغاز کرنے والا اب ایکسپریس پر رواں دواں ہے۔ ایک دن ''فرہاد احمد فگار''  گوگل کیا تو گویا اردو باغ کا دریچہ کھل گیا۔ اب ان کا مرتّبہ  افتخارمغل کا ایم فل کا مقالہ آزاد کشمیر میں اردو شاعری شائع ہوا ہے۔ ان کے کام کی رفتار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بہت جلد ان کا شیلف ان کی اپنی کتابوں سے سجنے والا ہے۔ ان کتابوں میں رکھا ان کے عشق کا یہ نقشِ اوّلین انہیں آغازِ سفر کی یاد دلاتا اور گرماتا رہے گا۔