جامی صاحب سے غائبانہ تعارف تو تھا لیکن ملاقات گزشتہ سال مظفر آباد میں ایک شادی میں ہوئی۔ دلہے فرہاد احمد فگار کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ ہل چل مچی ہوئی ہے۔ پتا چلا کہ ہل چل کا باعث شادی نہیں بلکہ کراچی سے سید معراج جامی کی تشریف آوری ہے۔ ان کے اعزاز میں شعری نشست کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ احمد وقار میر اور شوکت اقبال مصور سخن فہموں اور عبدالمنان وانی، واحد اعجاز میر کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔ دلہے کے دوست حسن ظہیر راجہ شادی کے جھمیلوں کے سمیٹنے میں جت گئے ہیں۔ ڈاکٹر ماجد محمود اور ظہیرعمر جامی صاحب سے رودادِ سفر سن رہے ہیں۔ سب بہم ہوئے تو نشست برپا ہوئی۔ نشست کے بعد پرتکلف عشائیے کا اہتمام تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جامی صاحب ایک ایک شریک سے حال احوال کے ساتھ اس کی ضرورت کی کتابوں کی تفصیل بھی پوچھ رہے تھے۔
اگلے دن ولیمے کے بعد ہم تو لوٹ آئے لیکن جامی صاحب کشمیر و پختون خواہ میں جاننے والوں کے دیدار کے لیے نکل گئے۔ ایک ایک سے ملے، تصاویر بنائیں، گھر پہنچ کر سفر نامہ لکھا اور سب متعلقہ لوگوں کو ٹیگ کیا۔ اس شغل سے فارغ ہوئے تو فرمائشی فہرستیں نکالیں اور کتابوں کی تلاش میں لگ گئے۔ کسی کو کتابیں بلٹی کیں، کسی کو کسی کے ہاتھ بھیجیں۔ پاک پوسٹ کے بھی وارے نیارے ہو گئے۔ ہم بھی محروم نہیں رہے۔ ہمارے نام ماہانہ پرواز جاری کر دیا گیا، جس کی وصولی کی اطلاع کل پر ٹالتے ٹالتے 2016 گزر گیا لیکن پرواز کی ترسیل کا تسلسل رکا نہ کبھی گلا کیا۔
سیّد معراج جامی کے اجداد بغداد سے کلکتہ آ بسے۔ لکیر کھنچی تو کراچی آ گئے۔ کراچی میں دبستانِ داغ کے آخری استاد جناب فدا خالد دہلوی کی شاگردی اختیار کی۔ یوں آپ بھی دل کے دبستان سے وابستہ ہو گئے اور اب تک زندگی غموں سے بہلاتے ہیں۔ اپنے غم پالتے اور دوسروں کے بانٹتے ہیں۔ دل کا دورہ پڑ چکا ہے، اس کے باوجود امیدِ سحر میں دل کا دیا جلائے رکھتے ہیں۔
آپ زود نویس ہیں۔ پنجابی ماہیے اور دوہے سے لے کر جاپانی ہائیکو اور سین ریوز تک کوئی صنف سخن ایسی نہیں جس پر طبع آزمائی نہ کی ہو۔''معراجِ عقیدت'' اب بھی نعت اور غزل ہے۔ پچیس سال پہلے "روزن خیال " سے جھانکنے والے اب ''معراجِ فکر'' اور ''معراجِ خیال'' کو چھو رہے ہیں۔ نثری کاوشیں اس سے کہیں بڑھ کر ہیں جو ''مقالاتِ افتتاحیہ'' اور جناب جمیل جالبی کی ''تاریخ ادب اردو کا اشاریہ'' سے لے کر ''شعراء کراچی کا تذکرہ'' تک پھیلی ہوئی ہیں۔
آپ گلوبل ویلج کے ایک بڑے مرکز کراچی میں ادبی تقریبات منعقد کراتے رہتے ہیں۔ استنبول سے ارتباط، لندن سے پرواز، لیوٹن سے سفیر نکالنے میں شریک یا معاون ہیں۔ دہلی سے کتابیں شائع کراتے ہیں۔ کینیا میں کتاب کی تقریبِ رونمائی میں شریک ہیں۔ لندن میں مقالہ پڑھ رہے ہیں۔ کبھی'' بیوی سے چھپ کر 'ــــــــــــــــ'انگلستان خدا کی شان'' دیکھنے چلے جاتے ہیں۔
کتاب دوستی آپ کی گھٹی میں پڑی ہے۔ کتاب کے لیے سفر سعادت سمجھتے ہیں۔ فٹ پاتھوں سے لے کر کتب میلوں تک میں کتابیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ پاکستان میں کتاب دوستوں کی فہرست مرتب کی جائے تو آپ کا نام پہلے صفحے پر ہو گا۔ کتابیں ڈھونڈنے، جھاڑنے، خریدنے،سنوارنے اور بانٹنے کا عمل سال بھر جاری رہتا ہے۔ تعارف و تبصرہ کے ساتھ ساتھ نایاب کتابیں چھاپتے بھی ہیں۔ جناب فدا خالدی دہلوی کی رباعیات کے مجموعے آتشِ امروز کا دوسرا ایڈیشن 1995 میں دہلی سے شائع کرایا۔ کراچی کے کتاب دوست راشد اشرف کے اشتراک سے نایاب کتابیں بزمِ داغ اور آئینہء خیال شائع کروائیں۔ کل سرمایہء حیات حلقہ احباب، تخلیقات اورلائبریری ہے جس میں سات ہزار کتابیں ہیں۔
احباب کو کتابیں تحفتاً بھیجنا ان کی عادت اور عبادت ہے۔ اس فیض کی برکت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انہوں نے علامہ اقبال کے بارے میں ایک نایاب کتاب کا فوٹو کاپی ایڈیشن فرہاد احمد فگار کو گفٹ کیا۔ فرہاد سے یہ کتاب حسن ظہیر راجہ، قمرعباس، جناب جاوید احمد سے ہوتی مجھ تک پہنچی۔ یہ صرف ایک کتاب کی بات ہے۔ ایسی سینکڑوں کتابیں وہ دنیا بھر میں اپنے جاننے والوں کی نذرکر چکے ہیں۔
جناب معراج جامی جوہرِ قابل کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مل جائے تو اس کی پذیرائی کرتے ہیں۔ مظفر آباد میں جواں سال شاعر حسن ظہیر راجہ کو سنا تو حیران رہ گئے کہ سگلاخ پہاڑوں میں ایسی نمو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! پرواز دسمبر کے شمارے میں ان کی غزل اور فرہاد احمد فگار کا افسانہ کنگن بھی شامل ہے جن کی وال سے اس آرٹیکل کے لیے بنیادی معلومات اٹھانے کا سزا وار ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ افسانہ چھپنے کی خوشی میں وہ ادبی اخلاقیات کا یہ خون معاف کردیں گے۔