ہفتہ، 4 فروری، 2023

جولیاں جائے تعلیم نہیں تھی

0 تبصرے

جولیاں جان لیوا نام ہے۔اسے سنتے ہی  دھیان ہم جولیوں سے ہوتا ہوا، مرادوں بھری جھولیوں کے طرف چل نکلتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ٹیکسلا جب شاہ ڈھیری کہلاتا  تھا۔۔۔ تو  ان دنوں ا س ڈھیری کو  جائے ولیاں کہا جانے لگا جو وقت کے ساتھ  جولیاں ہو گیا۔اس جگہ کا اصل نام   کیا ہے؟ اس  حوالے سے تاریخ۔۔۔ جولیاں کی  اس خانقاہ کی طرح خاموش ہے۔

مقامی زبان میں جا جگہ کو کہتے ہیں، جائے ولیاں فارسی ترکیب ہے،  جولیاں  اورگریکو رومن  نام جولیان میں ایک نقطے کا فرق ہے۔ٹیکسلا شہر کی طرح    اس پہاڑی  خانقاہ کے نام میں بھی کئی  تہذیبیں جھلکتی ہیں۔

پنجاب و پختون خواہ کے سنگم پر واقع  اس ڈھیری  کو بجا طور پر جائے ولیاں یعنی سیٹ آف سینٹس کہا گیا ہے کہ صوفی، سنت، سادھو ، جوگی اور بھکشو ایسے ہی ویرانے پسند کرتے ہیں ۔ کَپِل وَستُو  کی روشنی نے  ہزاروں چوٹیوں کو  چمکایا  لیکن جو چمک جولیاں کے حصے میں آئی وہ کم کم چوٹیوں کو نصیب ہوئی۔ اس کا شمار ٹاپ ٹورسٹ ڈسٹینشنز میں ہوتا ہے۔ مہاتما گاندھی سے لے کر پرنس  چارلس تک  ایک دنیا یہاں آ چکی ہے۔بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے تو یہ کسی جنت سے کم نہیں ہے۔ اہل علم   کی اکثریت یہاں آتی ،  اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتی اور  اپنی خوشی اور عقیدت کا اظہار، ٹویٹس،  وڈیوز، آرٹیکلز اور تھیسز کی صورت میں کرتی ہے۔ ملک بھر کے تعلیمی ادارے  اپنے تعلیمی و تفریحی ٹرپس  کے لیے   جولیاں کو بہترین انتخاب سمجھتے ہیں۔

ہم نے بچپن سے سن رکھا تھا کہ  جولیاں میں  دنیا کی پہلی یونیورسٹی   کے آثار ہیں۔ اس لیے  ہم نے جب جب  جولیاں کمپلیکس  میں قدم رکھا تو عقیدتاً  اس  کی خاک اپنے سر اور چہرے پر ملی۔

جولیاں کمپلیکس کے  دو حصے ہیں۔ پہلے  خانقاہ  ہے۔ جہاں  منتی اسٹوپوں پر   بدھا کی شبہیں ہیں۔ آرٹ ورک  اتنا شاندار ہے ۔۔۔کہ دل، دماغ، آنکھیں، قلم،   کیمرے سب  اس پر فِدا ہیں۔   بدھا کے چہرے کی مسکراہٹ کا تخیقی حسن نظر پتھرا اور دل پگھلا دیتا ہے۔ اب زیادہ تر مورتیاں ٹیکسلا میوزیم میں پڑی ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے صنم تراشوں نے عشق کو حیرت میں ڈال رکھا تھا۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اُس دور میں جولیاں، ٹیکسلا اور گندھارا کی  فضاؤں میں روحانی سرشاری کا کیا عالم ہو گا جب بے خودبھکشو مرادوں کی جھولیاں بھرنے دور دراز  مقامات سے  جولیاں آتے اور ان کا طواف کرتے تھے۔ شفا بخش بدھا کی ناف میں انگلی رکھتے ہی سر سے پاؤں تک مسیحائی کی تاثیرمحسوس کرتے تھے۔  رہی سہی  کمی قریبی ڈھیری سے مشت بھر خاکِ شفا سے نکل جاتی  تھی۔

جولیاں کی یہ خانقاہ کشانوں کی  معاشی اور تہذیبی خوشحالی کی آئینہ دار ہے۔  بدھا نے صرف راج گدی ہی نہیں تیاگی تھی، وشواس کے رنگین   پردے بھی  تار تار کر دیے تھے مگر مہایان نے بدھا کی  مدھم مارگم گچامی کی تعلیمات تیاگ کر اسے  بھگوان بنا دیا  ۔ اس کی مورتیاں اس کثرت سے بنوائیں کہ گندھارا میں  اب بھی زیر زمین ہزاروں مورتیاں دفن ہیں۔ بدھا نے  کہا تھا کہ ۔۔۔سروم دکھم ۔۔۔اور اس بے کراں دکھ سے نجات کےلیے راستی کے  ہشت اصول دیے ۔۔۔ لیکن   مہایان نے  نروان کی شاہراہ پر وشواش کے ریشمی پردے آویزاں کر دیے۔

کمپلیکس کے اگلے حصے میں ایک کورٹ یارڈ ہے۔ یہی وہ کورٹ یارڈ ہے جسے دنیا کی پہلی یونیورسٹی کہا جاتا ہے۔ آپ جیسے ہی خانقاہ سے اس کورڈ یارڈ میں قدم رکھتے ہیں تو بائیں جانب ایک مندر میں بدھا کو گیان دھیان میں ڈوبا ہوا پاتے ہیں۔ اس احاطہ میں تقریباً  26 کھولیاں، ایک تالاب اور ایک باتھ روم ہے۔ اتنے ہی کمرے دوسری منزل پر تھے جو گر چکے  ہیں۔ ہر کمرے میں دو طاق ہیں۔کورٹ یارڈ میں لگی تختی بتاتی ہے کہ ودیارتھی ایک میں دیپک اور دوسری میں پشتک رکھتے تھے۔ گندھارا  کی زیادہ تر  خانقاہوں کے آثار ایسے ہی ہیں۔ چھوٹے  اور سادہ کمرے۔ تمام کمروں کا ایک دروازہ جو صحن یا تالاب  کی طرف کھلتا ہے۔

ہمارا خیال تھا کہ کورٹ یارڈ  کے اگلے حصے میں  لائبریری، لیبارٹری اور اوبزرویٹری   وغیرہ کے آثار ہوں گے لیکن وہاں  کچن، کچن انچارج کا کمرہ، گودام، اناج پیسنے، پکانے، کھانے اور برتن دھونے وغیرہ کی جگہوں  کے آثار  ہیں۔

اس احاطہ میں  ایک  اسمبلی ہال بھی ہے۔ ایسے ہی  اسمبلی ہال    گندھارا کی  کچھ  اور   خانقاہوں  میں بھی ملتے  ہیں۔ ویساک اور دیگر اہم  موقعوں پر  جب زائرین مل کر ورد کرتے اور   گیت گاتے ہوں گے  تو جولیاں کی خاموشیوں میں طلسم بکھر جاتا ہو گا۔

بدھم شرنم گچھامی                                                      

دھمم شرنم گھچامی

سنگھم شرنم گھچامی 

مگر جدت پسند مہایان نے بھیڑ ماؤنڈ ، سرکپ اور سر سکھ کی بجائے اس  پہاڑی ویرانے میں یہ خانقاہ کیوں بنائی؟؟؟ ایسا اس لیے کیا گیا کہ ٹیکسلا ہمیشہ حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے۔ بھکشوؤں کی حفاظت کے پیش نظر خانقاہوں کے لیے ایسے  ویرانوں  کا انتخاب کیا گیا ۔اٹلی کے معرف آرکیالوجست ڈاکٹر لوقا ماریہ اولوویری کا حال میں ایک آرٹیکل منظر عام پر آیا ہے جس میں انہوں نے جولیاں سمیت بہت سی بدھسٹ سائٹس کو خانقاہیں اور پناہ گاہیں لکھا ہے۔

ٹیکسلا کا شمار گندھارا کے ان مقامات میں ہوتا ہے جہاں بدھ مت کا پھیلاؤ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اشوکا نے دھرما راجیکا سے بدھ زیارت گاہوں کی تعمیر کی جو شروعات کی تھی کشانوں نے اسے شاندار انداز میں آگے بڑھایا۔بعض زیارت گاہوں کے ساتھ زائرین کے لیے اقامت گاہیں بھی  تعمیر  کی گئیں۔جولیاں بھی ایک ایسی ہی اقامتی  خانقاہ  دکھائی دیتی ہے۔الیگزینڈر کنگھم  نے سروے آف انڈیا   اور  جون مارشل نے گائیڈ ٹو ٹیکسلا میں اسے خانقاہ  ہی لکھا ہے۔

راولپنڈی گزیٹیئر 1893-94 کے مطابق ''جاولی کی قدیم باقیات پانچ خستہ حال سٹوپوں اور دو مندروں میں مشتمل ہیں۔ ان سبھی پر تحقیق کی جا چکی ہے مگر قابل قدر نتائج سامنے نہیں آئے''۔

ٹیکسلا کے دیگر مقامات کی طرح جولیاں کی اس  خانقاہ   بھی 1980 میں ورلڈ ہیریٹیج سائٹس میں شامل کر لیا گیا۔یہاں لگا   یونیسکو کا معلوماتی   بورڈ بھی  اسے خانقاہ ہی بتاتا ہے۔اگر آپ ٹیکسلا سے جولیاں کا سفر کریں تو  آپ کو راہنمائی کے لیے لگائے گئے بورڈز پر  آثار قدیمہ جولیاں یا جولیاں خانقاہ  ہی لکھا ہوا ملے گا۔

    ڈاکٹر احمد حسن دانی  کی ہسٹورک سٹی آف ٹیکسلا  کے مطابق  جولیاں  بدھ زائرین کی آرام گاہوں یا میٹنگ پوائنٹس میں سے ایک تھی جو مختلف ممالک سے یہاں تک کا سفر کرتے اور مانسہرہ سے مانکیالہ کی زیارتوں پر حاضری دیتے تھے ۔ڈاکٹر  دانی نے یہاں سے ملنے والے نَوادِرات کے جو تفصیل دی ہے اس میں سکّے، صراحیاں، چینکیں، کٹورے، مرتبان کے ڈھکن، زیورات، انگوٹھیاں اورہار وغیرہ شامل ہیں۔اس فہرست میں ایک دوات بھی  ہے۔ اس بنیاد  پر آپ اسے اسکول، کالج،  یونیورسٹی، آشرم، پاٹ شالا  یا وشوودیالہ کا درجہ دینا چاہیں تو جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی  کہ ایک خانقاہی  سرائے میں کوئی درسگاہ نہیں ہو سکتی ۔۔۔بلکہ اصل بات  یہیں سے شروع  ہوتی ہے کہ آخر دنیا کی قدیم ترین درسگاہ   اس سرائے  سے منسوب کیسے ہوئی؟ اگر دنیا کی پہلی  یونیورسٹی یہاں نہیں   تو  پھر ٹیکسلا میں کس جگہ تھی؟ تھی بھی یا نہیں؟  اگر تھی تو پھر   وزٹرز۔۔۔ ''کہاں ہے، کس طرف کو ہے ،کدھر ہے'' ۔۔۔کی تصویر کیوں بنے ہوئے ہیں؟   یہ اور ان جیسے بہت سے سوالات کے جوابات کے لیے دیکھیے ہمارا اگلا آرٹیکل : '' تکشاشیلا  یونیورسٹی :  اک کہانی ہے اور کچھ بھی نہیں ''


اتوار، 26 دسمبر، 2021

ساعی

0 تبصرے

 

 

کہوٹہ کلر روڈ پر نوگراں اور دکھائی کی درمیانی ندی  کراس کریں تو بائیں ہاتھ تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر صدیوں پرانا برگد ساعی کی نشان دہی کرتا ہے۔ جہاں سنتالیس اور وانا میں دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار ایک شہید کی قبر ہے۔

 

اپر اور لوئر ساعی کا مجموعی رقبہ تقریباً 4 ہزار کنال پر مشتمل ہے۔ یہاں کی اصل آبادی ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل تھی جو قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کر گئے۔ موجودہ آباد کاروں میں سے کچھ تو دو اڑھائی سو سال پہلے روات اور بیور وغیرہ سے آ کر یہاں آباد ہوئے اور بقیہ 47 میں شملہ، امرتسر اور کشمیر سے ہجرت کر کے یہاں آئے۔

 

گاؤں میں ایک تاریخی اسکول ہے۔ جس کے لیے جگہ 1851ء میں "رام جی" نے دی۔ شروع میں یہ تین کمروں پر مشتمل تھا اور اس کی چھت لکڑی کی تھی۔ 1880ء میں یہ پرائمری، 1905ء میں لوئر مڈل اور 1917ء میں اسے مڈل کا درجہ دیا۔ سن 47 سے 51 تک یہ سکول بند رہا اور سن 51 میں ماسٹر کالا صاحب نے اسے دوبارہ کھولا۔

 

گاؤں کے شمال میں'کس' کے قریب ایک پہاڑی پر 'عید گاہ' ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے دکھالی، کوٹ، نوگراں، بمبلوٹ، لس، کلاہنہ اور ڈھیری وغیرہ سے قافلے کلمہ طیبہ لکھے جھنڈے اٹھائے اور کلمے کا ورد کرتے اس عید گاہ کی طرف آتے تھے۔

 

ساعی کی حدود اس ندی تک ہیں۔ یہاں ایک چشمہ (ناڑہ) ہے۔ ساتھ ''خواجہ خضر'' کی بیٹھک  ہے جن  کے دم سے چشمہ جاری ہے۔ کے آر ایل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی پانی کی ضروریات کے لیے کے آر ایل کے ماہرین کی ایک ٹیم نےتحقیق کی توپتا چلا کہ ساعی سے کافی اوپر 'دھنیام' کے مقام سے پانی کی رگیں نکلتی ہیں۔

ہفتہ، 25 دسمبر، 2021

دادا امیر حیدر کے مزار تک

0 تبصرے

 





میں مارچ سنتالیس کے فسادات کے محرکات پر غور کر رہا تھا۔ بظاہر ان کے خونی چھینٹے مسلم لیگ کے سفید لباس پر پڑتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ برطانیہ عظمٰی کے ایجنٹوں اور ایجنسیوں کوان فسا دات کی بروقت خبر کیوں نہیں ہوئی؟؟؟ انڈین آرمی کو پنڈی سے کہوٹہ آنے میں 5 دن کیوں لگے؟؟؟ خشونت سنگھ نے جناح اور تقسیم ہند کے حوالے سے اپنی کتاب میں بٹوارے کا ذمہ دار سردار پٹیل اور پنڈت نہرو کو ٹھہرایا ہے۔لیگی اور کانگرسی اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ یہ دونوں فریق سامراج کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے ۔۔۔؟ جس نے پہلے انتہائی عیاری سے ہندوستان پر قبضہ کیا اورپھرعوام کو تقسیم کرنے اور حکومت کرنے کا انسانیت کش اصول اپنایا۔ اس گھناونے مقصد کے حصول کے لیے 1872 کی مردم شماری میں مذہب کا خانہ خصوصی طور پر شامل کیا ۔ تقسیم در تقسیم کے اصول پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کو طبقات میں بانٹا۔ کاغذات مال میں مذہب کے ساتھ ذات اور پیشے کا اندارج لازمی ٹھہرایا۔ جس کے اخراج کا سہرا سوا سو سال بعد کہوٹہ کی ایک سیاسی اور سماجی شخصیت غلام ربانی قریشی کے سر بندھا۔

دوسری عالمگیر جنگ کے بعد برطانوی سامراج کا سورج غروب ہونے لگا ۔سامراجی تاجردنیا میں پھیلتی ہوئی اشتراکیت سے خائف تھے۔ فروری 1946 میں جب جہازیوں نے رائل انڈین بحریہ کے جہازوں پر سرخ پرچم لہرائے تو سامراج لرز گیا۔ہندوستان کی آزادی کی رو کوعالمی اشتراکی انقلابی دھارے سے علاحدہ رکھنے کے لیے بوئی گئی مذھبی منافرت کو بھڑکانا بنیادی میکنزم ٹھہرا۔مجوزہ مشرقی پاکستان میں نواکھلی اور مغربی پاکستان میں کہوٹہ کو خصوصی طور پر خونی ڈرامہ سٹیج کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ کیبنٹ مشن کا ڈول ڈالا گیا ۔خلافِ اصول اقتدار گانگرس کے حوالے کیا گیاـــــــــ16 اگست کو راست اقدام ہواـــــــــقانون کے ہاتھ میں پہلی مرتبہ پستول دیکھا گیاـــــــ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیاں خونی فسادات، قتل و غارت گری، نسل کشی، لوٹ مار، خواتین کی بے آبروئی اور کنویں میں چھلانگیں۔ــــ کچھ ماہ بعد سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان کہوٹہ میں ہوبہو سٹیج سجایا گیا۔ـــــ14 اور 15 اگست 1947 کوہندوستان کی حسبِ منشا خونی تقسیم عمل میں لائی گئی جس کے زخم آج تک چاٹے جا رہے ہیں۔

'' جہازیوں کی بغاوت ''سے میرا دھیان کالیاں سہالیاں کے لفٹسٹ اور ْْْغدر پارٹی کے عظیم قائد دادا امیر حیدر کی طرف چلا گیا۔'' جو دریائے جہلم کے بیچ کنڈی والے میں آ کر آباد ہو گیا۔جب جہلم نے اپنا رخ بدلا تو اس کی مٹی پر دادا کے والد کالو خان نے اپنا کوٹھا تعمیر کیا۔ یوں کچی بستی کاہلیاں کی بنیاد پڑی۔بعد میں یہ کاہلیاں سہالیاں بن گیا۔ یہیں دادا امیر حیدرپیدا ہوئے۔ پانچ برس کے تھے کہ یتیم ہو گئے۔ بچپن میں آواز رندھ گئی ۔سوتیلے باپ کا سلوک اچھا نہیں تھا۔ دادا بچپن میں ننگے پاوں کاہلیاں کی ریتلے راستوں پر آواروہ گھومتے رہتے۔ تلخ حالات کے تھپیڑے تو کسی نہ کسی طرح سہہ گئے لیکن ایک مرتبہ ماں نے چماٹ ماری تو برداشت نہ کر سکے اور پشاور چلے گئے اورخچر بس سروس میں مزدوری کرنے لگے۔مشقت نے آواز بھی بحال کردی۔ ماں کی یاد ستائی تو واپس آ گئے۔ ماں نے انہیں کسی طرح آٹھ میل کے فاصلے پر گورنمنٹ پرائمری سکول بیول داخل کرا دیا۔'' (شکریہ: دادا امیر حیدر نے بتایا مرزا حامد بیگ)

میں کچھ دن پہلے کلر بائی پاس، کنوہا، سھوٹ، چوہا خالصہ سے ہوتا کالیاں کے راستے میں بیول کے اس ا سکول جا پہنچا جہاں دادا نے تین کلاسیں پاس کی تھیں۔ یہی ان کی کل تعلیم تھی بقیہ تعلیم انہوں نے بس سٹاپوں، فٹ پاتھوں، بحری گودیوں اور دخانی جہازوں میں حاصل کی جہاں انہوں نے مزدور، ملاح، میرین انجینئر،پائلٹ، ریلوے انجینئر اور کامریڈ تک کے مراحل طے کیے۔

1860 میں تعمیر ہونے والا گورنمنٹ پرائمری سکول بیول اب ہائی کے درجے میں ہے۔معصوم امیر اسکول میں جھاڑو لگانے کے علاوہ اساتذہ کے گھوڑوں کو پانی بھی پلانے ۔ جس کے صلے میں ہیڈ ماسٹر انہیں کھانا دیتے اور جانوروں کے لیے مخصوص ڈیوڑھی میں رات گزارنے کی اجازت تھی۔

میں بیول کی اس ویران مسجدکا کھوج لگانا چاہتا تھا جوکبھی کبھارامیر حیدر کا ٹھکانہ رہتی رہی ہے۔ لیکن بیول بہت بدل گیا ہے۔ اب اس کا شمار پاکستان کے خوشحال ترین موضعات میں ہوتا ہے۔یہاں کسی ویران مسجد کا ملنا محال ہے۔

میں اس راستے کو مشتاق نگاہوں سے دیکھنے لگا جہاں سے ہوتے ہوئے دادا پشاور ، کلکتہ اور آخری بار 1914 میں بمبئی گئے تھے۔جہاں سے انہوں نے کئی براعظموں کا سفر کیا اور 1945 میں گاوں لوٹے۔ میں بیول، سموٹ سے ہوتا ہوا کلر سیداں کے انتہائی شمال میں موضع کالیاں پہنچ گیا جو2004تک کہوٹہ میں شامل تھااورجس کے بارے میں دادا امیر حیدر کہا کرتے تھے کہ خدا اسے بنا کر بھول گیا ہے۔

کالیاں میں قابل دید گورنمنٹ گرلز ہائی سکول اور گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کی عمارات ہیں۔ یہ دونوں سکول دادا نے وقف کیے اور اپنی زندگی میں ہائی کا درجہ دلوا یا۔بوائز ہائی سکول پندرہ کنال پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں سفیدے کے قطار اندر قطار درخت، گراسی گراونڈ، باسکٹ بال کورٹ، کمپیوٹر لیب اور تربیت یافتہ عملہ موجود ہے۔میں سکول کے وسیع حاطہ کے ایک کونے میں دادا کی قبر پر جا پہنچا جس پر حاضری کا عہد میں کئی سال پہلے کر چکا تھا۔

کہوٹہ لٹریری سوسائٹی کے سابق صدر مرحوم سرور سلطان نے کامریڈ عمر جمیل اور محترمہ فرزانہ باری کو دومرتبہ کہوٹہ مدعو کیا۔سرشار سوشلسٹ عمر جمیل مریدانہ اشتیاق سے دادا امیر حیدر سے اپنی ارادت کا گھنٹوں اظہار کرتے رہے۔ یہ بھی طے پایا کہ اگلی مرتبہ کہوٹہ سے"ڈالی" لے کردادا کی قبر تک جائیں گے۔فرینڈز ہوٹل کہوٹہ میں ''عوامی ورکر پارٹی '' کی مقامی تنظیم سازی بھی ہوئی۔ لیکن سرور سلطان صاحب اچانک چل بسےاور سب کچھ ادھورا رہ گیا۔اب کہوٹہ میں ڈاکٹرنجیب نگارش ، سبط سرور سلطان اور صابر علی صدیقی انفردی طور پراپنے اپنے حلقوں میں مارکسی فکر پر بات کرتے رہتے ہیں۔ البتہ ایک اور تنظیم فکر شاہ ولی اللٰہی گزشتہ دس سال سے عبید اللہ سندھی کے سماجی افکارکاابلاغ محتاط لیکن منظم انداز میں کررہی ہے۔ کہوٹہ کی نئی نسل کو مارکسزم سے متعارف کروانے میں ڈاکٹر روش ندیم اور ڈاکٹرارشد معراج کا بھی بہت دخل ہے جوگورنمنٹ ڈگری کالج کہوٹہ میں تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہتے ہیںَ۔

میں دادا کے رشتہ داروں سے ملنا چاہتا تھا لیکن پتا چلا کہ وہ سامنے سہالیاں رہتے ہیں۔ کالیاں اور سہالیاں یوں تو آمنے سامنے ہیں لیکن دونوں میں منگلا جھیل کا گہرا پانی ہے۔ کشتی تک پہنچنے کا راستہ شرمناک حد تک خراب ہے۔

مارکس نے کہا تھا کہ۔۔۔ The proletarians have nothing to lose but their chains.دادا امیر حیدر نے اپنی یاداشتوں کا نام بھی NOTHING TO LOSE رکھا۔یہ یاداشتیں انہوں نے انیس انتالیس میں دورانِ اسیری مرتب کیں انہیں پڑھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ سامراج نے پوٹھوہار کو کتنا پسماندہ رکھا تاکہ جنگ میں جھونکنے کے لیے انسانی ایندھن کی رسد بحال رہے۔اس کا پنجابی ترجمہ ''اک اکّی نی کہانی" کے عنوان سے چھپا۔

انقلابی کہیں کا بھی ہو اس کی زندگی کوئے یار سے سوئے دار کا سفر ہوتی ہے۔۔دادا اپنے اشتراکی نطریات کے باعث عمر بھر ریاستی جبر، قیدو بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں کاٹتے رہے۔ میرٹھ سازش کیس میں 1929 میں ان کے وارانٹ گرفتاری نکلے۔ لیکن بحری راستے سے فرار ہو گئے۔ 1932 میں واپس آئے اورگرفتار ہوگئے۔ 1939 میں دوسال کی قید ہوئی۔قیام پاکسان کے بعد اکثر جیل یاترا ہوتی رہی۔

پوٹھوہار اطراف و جوانب سے الزامات کی زد میں رہتا ہے۔ دادا امیر حیدر کی بے داغ جبیں نے ان الزامات کی شدت کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے۔ کسی عقیدت گزار نے ان کے مزار پر بجا طور پر لکھا ہے
نہیں ہے کوئی بھی داغِ سجدہ تری جبیں پر
ڈٹا رہا عرصہ وفا میں تو زندگی بھر

" بھاٹہ تاریخ کے آئینے میں''

0 تبصرے

 


قمر عبداللہ یہ کتاب اپنے مادرِِ علمی گورنمنٹ ہائی سکول بھاٹا کی صد سالہ یومِ تاسیس کے موقعہ پرشائع کروا رہے ہیں۔ جو ادارے کے ساتھ ان کے مخلصانہ تعلق کا باوقاراظہارہے۔ بھاٹہ کی تاریخ، اقوام، شخصیات اور مقامات وغیرہ کا مفصل احوال انتہائی سادہ اور دلنشین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ لفظ لفظ سے مٹی کی محبت کی خوشبو آ رہی ہے۔

مجھے بھاٹا اور اہل بھاٹآ کے مقدر پر رشک آ رہا ہے کہ اس گاوں کی پانچ چھ سو سالہ تاریخ اور شخصیات پر اتنا تحقیقی کام ہوا ہے۔ ہمارے ہاں گاوں گوٹھ اور قصبے تو درکنار بے شمار چھوٹے بڑے شہر ایسے ہیں جنہیں قمر تو کیا، اب تک کوئی عبداللہ نہیں ملا۔

قمر عبداللہ افسانہ نگار، ناول نگار، صوفی اور شاعر ہیں۔ ہر شعبے کا حق کتاب کی صورت میں ادا چکے ہیں۔ عربی شاہ قلندر پر ان کی کتاب ''جلوہ عشق'' اہلِ تصوف سے داد وصول کر چکی ہے۔ اس لیے " بھاٹہ تاریخ کے آئینے میں'' ان کی صوفیانہ خوش خیالی کی جھلکیاں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔

قمر عبداللہ پہلی مرتبہ تاریخ کے پرخار دشت میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس میدان کی وسعتیں دیکھتے ہوئے اس کتاب میں گنجائشیں یقیناً ہوں گی۔ لیکن انہوں نے مستقبل کے مورخ اور محقق کے لیے بنیادی کام کر دیا ہے۔
(حبیبـــــ گـــــوہرکے مضمون سے اقتباس)

ابن آدم

0 تبصرے

 


کہوٹہ کے جنوب میں تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر سروٹ ہے۔ یہ گاوں ایک بڑے مرتفع میدان پر پھیلا ہوا ہے۔سروٹ کی حدود کو لنگ اور کلھمن کا پانی چھوتا ہوا گزرتا ہے۔ '' سر '' سنسکرت میں پانی کو کہتے ہیں۔ جس طرح روسی ناموں کے آخر میںً ف لگا کر انہیں گورباچوف ، کریموف ، اسلاموف بنا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کہوٹہ میں جگہوں کے ناموں کے آخر میں ٹ کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔۔۔علیوٹ، کھڈیوٹ،دریوٹ، نتھوٹ اور سروٹ۔

کہوٹہ میں سروٹ جنجوعہ راجگان کے مراکز میں سے ایک ہے۔۔۔ جنجوعہ سپہ گری اور شاہ سواری میں تاریخی شہرت رکھتے ہیں ۔۔۔ راجہ مل کے سروٹی دولال اقبال خان کے گھر1934 میں وہ راج پوت پیدا ہوا جس نے اردو ادب کے جاسوسی راج محل میں تین دھائیاں قیام کیا۔

پون صدی پہلے سروٹ کے سنگریزوں پر ننگے پاوں پھرتے اور لنگ کے لہروں سے کھیلتے معصوم بنارس کے بارے میں کون جانتا تھا کہ کل اس کے تخیل کے دریا کی لہروں میں لاکھوں شناورتنکے کی طرح بہتے نظر آئیں گے۔

کہوٹہ کلر روڈ پر سہالی فیروزال سے دائیں سروٹ کی طرف جائیں تو ''گلہ'' کے مقام پر کاہو کے تین قدیم اور تناور درختوں کے سائے میں جاسوسی ادب کا قدآور ابنِ آدم مستقل آرام کر رہا ہے۔

یہ بات حیران کن ہے کہ مخصوص شخصی اور سماجی تفاخر کی حامل قوم کے ''راج پوت '' نے اپنا قلمی نام ابن آدم منتخب کیا اور محدود دائرے سے نکل کر آفاقی دائرے میں داخل ہو گیا۔

ابن آدم کے والد راجہ اقبال خان کاشتکار تھے۔۔۔ پھر پولیس میں ملازمت اختیار کر لی۔۔۔راجہ بنارس کی تعلیم پرائمری سکول پنجاڑچوک کہوٹہ اور ہائی سکول کہوٹہ میں ہوئی ۔ 1950 میں فوج میں بھرتی ہو گئے۔۔ ایف اے دوران سروس پرائیوٹ کیا۔1978 میں ریٹائرڈ ہو گئے۔ 1980 سے 1996 تک گورنمنٹ ہائی سکول کہوٹہ میں ہیڈ کلرک کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔

ان کی پہلی کہانی 1962 میں روزنامہ تعمیر میں ایم بی شاہیں کے نام سے چھپی۔ان کا ناول دوزخی 1965 میں چھپا۔ آورہ گرد دس سال '' نئے افق '' میں قسط وار چھپتا رہا ۔ آوارہ گرد کے علاوہ ، لاوراث، چرغ، عنوشہ ، ٹھگ، ماڈرن ٹھگ، سیاہ عقاب، ٹوٹی کمند یہاں، کفن بدوش،کوثری، جلتے دامن، جب بہار آئی، بے نقاب اور کفن کی بکل وغیرہ لکھے۔ اس کے علاوہ ماہانہ ڈائجسٹوں نیا رخ اور نئے افق کے لیے قسط وار کہانیاں لکھتے تھے۔

ڈائجسٹوں کی ڈیمانڈ کے مطابق ابن آدم کی اکثر کہانیاں افسانوی ہیں۔۔ ان میں ماورائی اور غیر مرئی عناصر بھی ہیں۔۔ اس کے علاوہ انہوں نے سماجی مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ لاوراث اس کی محض ایک مثال ہے۔یہ ایک یتیم بچے اور ایک بہادر عورت کی کہانی ہے جسے خودغرض معاشرہ دھتکار دیتا ہےلیکن وہ شکست تسلیم نہیں کرتی اور اپنی اولاد کے لیے سماج کے جبر کا مقابلہ کرتی ہے۔ ان کے کردار معاشرے کے عام افراد ہیں۔ ان کی کہانیوں کے ہیرو بھی افسانوی ہیروز کی طرح نہیں ہیں۔
ابن آدم کے کچھ ناول تحریک آزادی کشمیر کے متعلق ہیں۔۔ جن میں شعلہ حریت اور چرغ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ کشمیر سے کہوٹہ کا خصوصی تعلق ہے۔ ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔۔۔ کشمیرپر کہوٹہ کے جناب جاوید احمد کو "اے دنیا کے منصفو!" پر صدارتی ایوارڈ ملا۔

ابن آدم صحافی بھی تھے۔۔۔ پہلے اساس اخبار سے منسلک رہے۔۔ اوصاف میں کافی عرضہ شہباز کے عنوان سے کالم لکھتے رہے۔ آل پاکستان اخبارفروش یونین کے سیکرٹری جنرل ٹکا خان عباسی کے رفاقت میں آپ نے مسلمان اخبار نکالا جس کے آپ چیف ایڈیٹر تھے۔ گھر سے باہر آپ کا زیادہ تر وقت اخبار مارکیٹ اسلام آباد یا پریس کلب کہوٹہ میں صوفی ایوب صاحب کے ساتھ گزرتا تھا۔آپ 3 بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کے واحد کفیل تھے۔ اس لیے جگر کے کینسر کے باوجود لکھنا پڑتا۔ 8 مئی 1998 کو وفات پائی اور 7 مئی 1998 کو اوصاف میں آپ کا کالم چھا ہوا تھا۔

ابن آدم کا ایک روپ '' پہاپا بنارس '' کا بھی تھا۔ ریڈیو کے پروگرام راول رنگ اور گراں نی وسنی کےعلاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے بھی پوٹھوہاری ٹیلی پلے لکھے۔ آپ پوٹھوہاری کے اچھے صداکار بھی تھے اور حسب ضرورت ریڈیو پروگراموں میں کام کرتے تھے۔ ماسٹر نثارجیسے جید پوٹھوہاری شاعر ان سے مختلف علمی نکات پرمشورہ کرتے۔۔۔مشہور شعر خواں راجہ عابد کو متعارف بھی آپ نے کرایا۔ شعرخوانی کے لیے '' پہاپابنارس '' کی خدمات کے اعتراف میں بزم اھل سخن پوٹھوہار کی جانب سے آپ کو شیلڈ بھی پیش کی گئی۔

ان کے دوستوں میں اختر امام رضوی ، سلطان ظہور اختر ، ڈاکٹر محمد عارف قریشی ، ملک مبین (مرحوم) ، راجہ سکندر(مرحوم) ، ٹکا خان عباسی اور جناب برکت کیانی شامل تھے۔ ان کی وفات پر قدیر میونسپل لائبریری میں ایک تعزیتی اجلاس ہواتھا کچھ ماہ پہلے راجہ انور نے ان پر ایک کالم لکھا۔اس کے علاوہ ابن آدم پر کوئی کام نہیں ہوا۔ ان کے مختلف کرداروں کی تفصیل تو ایک طرف ان کی کتابوں کی کوئی فہرست بھی اب تک مرتب نہیں ہو سکی۔

کہوٹہ کے اے سی بلال ہاشم اہلِ علم کے قدردان ہیں۔ اگر کہوٹہ کی کسی سڑک کا نام ابن آدم کے نام پر رکھ دیا جائے تو اس مردہ سماج میں ایک زندہ مثال ہو گی۔۔اس کے علاوہ قدیر میونسپل لائبریری میں جاسوسی ادب کا سیکشن ان کے نام ہونا چاہیئے۔ ان کی تمام کتب اس میں رکھی جانی چاہیئیں۔ شہر کے کتب فروش اگر ان کی کتابیں اپنی دکانوں میں رکھیں تو یہ احسان شناسی کے زمرے میں آئے گا۔

معروف دانشور راجہ انور نے اپنے ایک اخباری کالم میں (3 اپریل 2014 ، بازگشت ، دنیا نیوز) ابن آدم کو پوٹھوہار کا ٹالسٹائی قرار دیا ہے۔ ٹالسٹائی اور ابن آدم میں کافی قدریں مشترک تھیں۔ دیہی پس منظر، فوجی خدمات ، کہانی کار، ناول نگار، زود نویسی اور تاریخ نویسی۔
ابن آدم ڈاکٹر محمد عارف قریشی کی رفاقت میں مختلف عنوانات کے تحت کہوٹہ کی تاریخ مرتب کر رہے تھے۔۔۔۔کہوٹہ چراغ سے بلب تک ، ٹیلی فون کی پہلی گھنٹی ، کہوٹہ میں پہلی موٹرکار وغیرہ وغیرہ۔ بدنصیبی کہ ابن آدم کی زندگی نے وفا نہیں کی اور یہ کام ادھورا رہ گیا ۔۔۔ اگر یہ ادھوری تاریخ پبلک ہو جائے تو یہ لکھاریوں کے لیے مہمیز کا کام کرے گی اور انہیں تکمیل پر ابھارے گی۔۔

ابن آدم کے طرزِ تحریر کی دو جھلکیاں دیکھئے :
٭۔۔۔''دولت ہی عزت ، وقار، شہرت ، شناخت اور طاقت ہے۔ دولت کسی گدھے کی اکاونٹ میں ہو تولوگ اسے بھی جھک جھک کر سلام کریں گے اور کسی انسان کی جیب خالی ہو تو اسے گدھے کی طرح ہانکنے لگتے ہیں۔''
عنوشہ

٭۔۔۔"منافقت اور بے وفائی کا زنگ کسی تعلق، کسی جذبے، کسی رشتے کو نہیں چھوڑتا۔۔ خود غرضی اور وقتی تسکین کی خواہشوں میں سچے جذبے یونہی گم ہو جاتے ہیں۔'' تعبیر۔عنوشہ

کھٹڑ تاریخ کے آئینے میں

0 تبصرے

 


راولپنڈی سے اٹک جاتے ہوئے سنگ جانی کراس کریں تو مارگلہ کے چوٹی پر جواں مرگ برطانوی بریگیڈیئر جنرل جان نکلسن کی ایک بلند و بالا یادگارسے نگاہیں ٹکراتی ہیں اور دھیان جان نکلسن سے ہوتا ہوا واہ کے کھٹڑ سرداروں کی طرف چلا جاتا ہے۔

واہ سنگ جانی سے باغ نیلاب کے درمیان پھیلی کھاٹری (ارضِ کھٹڑاں) کا مرکز ہے۔ کبھی اس کا نام جلال خان کھٹڑ کے نام پر'' جلال سر'' تھا۔ 1607 میں نورالدین جہانگیر نے یہاں سرسبز پہاڑیوں کے دامن میں شفاف چشموں کا جادوئی حسن دیکھ کر'' واہ '' کہا اور یہی اس کا نام ٹھہرا۔

سکھوں اور انگریزوں کی پہلی جنگ میں چترسنگھ ہری پور سے حسن ابدال پہنچ گیا۔ نکلسن اٹک سے موضع واہ آیا اور سردار کرم خان کھٹڑ کے مزارعین اور متوسلین پرمشتمل فوج تیار کی۔پنڈی سے خالصہ فوج سکھوں کی مدد کے لیےنکلی۔ نکلسن رسد کاٹنے مارگلہ پہنچا اور سکھوں کے گھیرے میں آ گیا۔ سردار کرم خان کی بروقت مدد سے یہ جنونی گورا بچ گیا اور اگلے بارہ سال تک کالوں کی گردنیں مارتا رہا۔ کچھ دن بعد سردار کرم خان کو ان کے بھائی فتح خان نے قتل کر دیا۔

جنگِ آزادی 1857 میں نکلسن دہلی میں شدید زخمی ہوا۔ سردار کرم خان کے بیٹے کی 9 دن کی حیات بخش تیمارداری کے باوجود بے جان ہو گیا۔ لیکن تیماردار کو حیاتِ تازہ مل گئی۔ محمد حیات خان نواب بن گئے۔ بے شمارجاگیراور واہ گارڈنز ان کے حوالے ہوئے۔

محمد حیات خان نے ماہر انساب ملا سرور سے خاندانی شجرہ مرتب کروایا جس کے مطابق ان کے جد راجہ شیو دیال چوہان 750 عیسوی میں براستہ کشمیر باغ نیلاب آئے۔ چودھویں پشت میں راجہ کھٹڑ نے اسلام قبول کر لیا اور وہ کھٹڑ خان بن گئے۔نواب محمد حیات خان کے بیٹے سردار سکندر حیات ـــــــ نواب، پنجاب کے گورنر اور وزیراعلی بنے۔ 1942 میں وفات پائی تو علامہ اقبال کے مقابل دفن ہوئے۔

پوتے سردار شوکت حیات خان کی شوکت بھی قابل دید رہی ـــــــ اس دیدہ ور نے ''دی نیشن ہو لاسٹ ہز سول'' لکھی۔ پہلی مرتبہ کھٹڑ تاریخ پر ایک کھٹڑ نے نظر ڈالی اور انہیں '' الکھٹڑ'' جبرالٹر کو سر کرتا، راڈرک کو روندتا اور سپین میں فتح کے جھنڈے گاڑتا دکھائی دیا۔ سقوطِ غرناطہ کے بعد کھٹڑ یورپ، ترکی، ایران اور افغانستان چھوڑتے خیبر پختون خوا سے گزرتے، دریائے سندھ پار کرتے باغ نیلاب میں ڈیرے ڈالتے نظر آتے ہیں۔

عام طور پر کھٹڑ اپنا شجرہ نسب قطب شاہ کے بیٹے چوہان سے جوڑتے ہیں جو محمود غزنوی کا سپہ سالار تھا۔ اس نے دریائے سندھ کے دھانے قصبہ نیلاب پر قبضہ کیا۔ لیکن چوہان کی سولویں پشت میں کھٹڑ خان کے دور میں اپنا قبضہ برقرار نہ رکھ سکے اور افغانستان نکل گئے۔ 1175 میں کھٹڑ خان نے سلطان غوری کے ملازمت اختیار کر لی اور غوری کے حملہ ہندوستان کے وقت نیلاب پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔

میں کہوٹہ میں کھٹڑوں کے محلے میں رہتا ہوں۔ جس کالج میں پڑھتا ہوں وہ علاقہ کھٹڑوں کی زد میں ہے۔ ان کی محبتوں کا اسیر بھی ہوں۔ کافی عرصے سے کوشش میں تھا کہ کھٹڑ تاریخ پر کچھ لکھا جائے۔ اس کے لیے کیپٹن (ر) محمد بنارس کھٹڑ صاحب کی کتابوں سمیت بے شمار مطالعہ کیا لیکن قلم اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے جتنے معتبر مورخین کوپڑھا انہوں نے کھٹڑ تاریخ کے حوالے سے اپنے عجز کا اظہار کیا ہے۔ عربی، خراسانی، ہندی ــــــــــ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔

کھٹڑوں میں دانشور مورخوں کی کمی نہیں رہی۔ اس دور میں بھی طارق علی موجود ہیں۔ لیکن اس لفٹسٹ کو اس موضوع سے شاید دلچسپی نہیں۔ ایسے میں ایک رائٹسٹ قمر عبداللہ اس نیلاب میں اترے ہیں۔

2
پوٹھوہار حسن کا وہ ''ٹوٹا'' ہے جسے مری کہوٹہ اور کالا چٹا کوہستانوں کی شاداب بانہوں نے گھیرا ہوا ہے۔ اس کے دامن میں جہلم اور سندھ کے امرت دھارے رواں ہیں۔اس کے سینے پر مارگلہ کی لٹ پڑی ہوئی ہے۔ جس کی ایک طرف تہذیب کی کونپلیں چٹکی ہوئی ہیں اور دوسری طرف تمدن کے گلاب کھلے ہوئے ہیں۔ کہوٹہ اور اٹک اس کی بالیاں ہیں جن میں باغ نیلاب کے سفید و سرمئی نگ جھلملا رہے ہیں۔

ویسے تو شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں باغ نیلاب کے ان نگینوں کی جگمگاہٹ نہ ہو لیکن پنڈی، اٹک اور چکوال میں جگہ جگہ ان کی کہکشائیں ہیں۔ یہ نگینے کسی تاج تک نہیں پہنچے کہ حکمران بنتے لیکن یہ اس جنت کی چوکھٹ کے رضوان ضرور تھے۔ ان کا تخت باغ نیلاب کا قلعہ تھا۔ ہنڈ پتن سے سوجندھ باٹا تک ان کی مرضی کے بغیر آمد و رفت مشکل تھی۔ یہ من موجی کے قائل تھے۔ کوئی بھی ان سے خوش نہیں تھا۔ سو رضوانی چھن گئی اور تخت تختہ بن گیا۔ تین سو سال کے بعد باغ نیلاب کا سفید نگینہ متحدہ پنجاب کے تاج میں چمکا اور آج ایک سرمئی نگینہ ہریانہ کے تاج میں جھلملا رہا ہے۔

اٹک شہر سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر کالا چٹا پہاڑ کے دامن، سندھ ساگر کے دھانے، پنجاب پختون خواہ کے سنگھم اور غازی بروٹھا ڈیم کے قریب باغ نیلاب کا تاریخ قصبہ ہے۔ دریائے سندھ ـــــــــ بروٹھا، باغ نیلاب، گھوڑا مار، گھوڑا ترپ اور سوجندہ بھاٹا سے گزرتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔ جب کہ سڑک صرف بھاٹا تک جاتی ہے۔ ساحل پر لاکھوں کی تعداد میں خوبصورت پتھر بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کی رنگت بلیک اینڈ وائٹ ہے۔ رنگوں کی یہی تخصیص کھٹڑوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ پتھردلکش تھے لیکن ــــــــ میں گوہرمراد کی تلاش تھی۔

کھٹڑوں کے اس بیان نے کہ وہ ابتدائی مسلم حملہ آوروں کے ساتھ باغ نیلاب آئے تھےــــــ ہمیں فارسی، یونانی، باختری، کوشانی، ساسانی اور وحشی سفید ہنوں کی کافر تاریخ کے مطالعے سے بچا لیا اور ہم غزنوی،غوری، تیموری اورمغل مجاہدوں کی تاریخ کی تلاوت کرنے لگے۔ ابوریحان البیرونی کی کتاب الہند کا صفحہ صفحہ چوما کہ شاید کہیں اس نے اپنے خراسانی ''گرائیوں'' کا ذکرکیا ہو۔اس امید پر فرشتہ صفت ابوالقاسم کا تاریخی صحیفہ دیکھا کہ شاید گکھڑوں کے ساتھ ساتھ کھٹڑوں کی توصیف بھی بیان کی ہو۔

چنگیزخان اپنی زندگی کی واحد شکست کا بدلہ لینے کے لیے جلال الدین خوارزم کا تعاقب کرتے باغ نیلاب پہنچا اور اسے گھیرے میں لے لیا۔ جلال الدین نے ایڑ لگائی اور گھوڑے سمیت دریا سے ہوتا پارپہنچ گیا۔ اس کی یادگار کے طور پر اب بھی اس جگہ کا نام گھوڑا ترپ ہے۔ یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ اسے پناہ دینے والوں میں کھٹڑ شامل ہیں۔

مغلوں سے پہلے کے پوٹھوہار کا منظر نامہ اتنا واضح نہیں۔ ان کے روزنامچے تاریخ کے تاریک دشت میں روشن شمعیں ہیں۔ تزکِ جہانگیری کے مطابق بہار 1607 میں جہانگیرنے کابل جاتے ہوئے نیلاب کے کنارے قیام کیا۔ یہاں شوریدہ سر دلازکوں اور ''کھتروں'' کے سات آٹھ ہزار مکانات تھے۔ اس نے حکم دیا کہ اس کی کابل واپسی سے پہلے انہیں لاہور کی طرف چلتا کریں اور کھٹڑ سرداروں کو گرفتار کر لیں۔

جانے جہانگیرسے کھٹڑوں نے کیا کھڑپینچی کی کہ انہیں باغ نیلاب سے ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔ ہم نے اپنے پندرہ سالہ تعلق میں انہیں نفیس پایا۔ اس حوالے سے ہم کھٹر شاعرڈاکٹر سعداللہ کلیم سے متفق ہیں :
نفرت کی زد میں ہوں تو بڑے سخت جان ہیں
ہم اہلِ دل ہیں ہم کو محبت کی مار دے

یوں کھٹڑ نیلاب بدر ہوئے اور جگہ جگہ پھیل گئے۔ خالصہ عہد میں کچھ کھٹڑ گھرانے عثمان کھٹڑ ٹیکسلا سے اٹھے اور لنگ کنارے کہوٹہ آباد ہوگئے۔ دریوٹ وارث، میرا، کالج کالونی ـــــــــ چاہات، ڈھونگی اوران دو کا درمیانی حصہ کھٹڑوں سے پر ہے۔ نیلاب کے حکمران محلہ چاہات کے نمبرداربنے۔ حالیہ بلدیاتی انتخاب میں محلہ چاہات سے ایک کانٹے دار مقابلے کے بعد قاضی اخلاق احمد کھٹڑ کونسلر منتخب ہوئے ہیں۔

خالصہ عہد میں ہی بھاٹا کے راجہ منگا خان کے بیٹے اور پوتی کے رشتے کہوٹہ کی کھٹڑ برادری میں ہوئے اور اس طرح بھاٹا (گجرخان) میں کھٹڑوں کی ابتدا ہوئی۔ ان کے ایک جوان قمر عبداللہ نے بھاٹا کی تاریخ لکھی ہے اور اس کی تمہید کھٹڑ تاریخ سے اٹھائی ہے۔

تحقیق کی جس جہان میں داخلے پر فرنگیوں کے پر جلتے تھے قمر عبداللہ اس میں دیوانہ وار اڑانیں بھر رہے ہیں۔ جن پتھروں کو محققین نے چوم کے چھوڑ دیا تھا وہ مصنف کے قدم چومتے دکھائی دیتے ہیں۔ کھٹڑوں کا قصہ یوں چھیڑا ہے کہ سرشار قاری نیلاب کی لہروں کے ساتھ تنکے کی طرح بہتا چلا جاتا ہے۔

لفظ کھٹڑ میں انجانا کچھاو ہے۔ سنتے ہی منہ میں پانی آ جاتا ہے۔ دھیان کھٹاس سے ہوتا ہوا منجی کی طرف چلا جاتا ہے۔ قمر عبداللہ نے یہ معمہ بھی ایک روایت سے حل کر دیا ہے : '' گوہر علی نے دوبارہ باغ نیلاب پر قبضہ کیا تو ہندو راجاوں نے کہا کہ گوہرعلی نے راجدھانی کھٹ لی ہے اور یوں گوہر علی کھٹڑ خان کے نام سے معروف ہو گیا۔''

کچھ دیدہ ور لفظ کھٹڑ کا مادہ عربی لفظ ''خطر'' بتاتے ہیں کہ یہ انتہائی خطرناک ہیں۔ انگریزہندوستان کی جن قوموں کو سپاہیانہ خصوصیات (مارشل ریس) کا حامل سمجھتا تھا ان میں کھٹڑ شامل تھےــــــ کچھ لوگ لفظ کھٹڑ کی کھتری اور خٹک سے قربت کی تلاش میں ہیں۔ ان کے لیے کرنل کراکوفٹ کا یہ تجزیہ کافی ہے:
“If, on the one hand, the Khattar be fierce and bloodthirsty, the Khatri of Jadal is courageous and persevering, and although living from day to day with a knief at his throat is as defiant as if he were backed by a force far out-weighing that of the Khattars and Khattacks and Afridis together.” (Rawalpindi Ghazatteer, 1893-94: 126)
'' اے ہسٹری فرام اورنگ زیب ٹو ماونٹ بیٹن'' میں گاندھی جی نے انہیں جاٹ لکھا ہے جو پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش میں موجود ہیں۔ یہاں ہریانہ کے موجودہ وزیراعلی منوہر لعل کھٹڑ اور فنکار راجیش کھٹڑ کا حوالہ دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ عبداللہ قمر نے یہ جھگڑا بھی ایک روایت کے حوالے سے کہیے چکا دیا ہے۔''کھٹڑخان کی ساتویں پشت باغ نیلاب پر حکومت کر رہی تھی کہ ایک ہندو جوگی کے سحر سے کھٹڑوں کا ایمان لرزنے لگا۔ ایک ولی نے نصرت الٰہی سے یہ سحراتارا۔''

ہم نے اس کامل کا سنا تو حاضری کے لیے باغ نیلاب روانہ ہو گئے۔ نوری بابا کا مزار ایک پہاڑی چوٹی پر ہے۔ پہنچنے کے لیے 170 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ گوہرِ مراد تک رسائی کے لیے یہ معمولی مسافت تھی۔ سو ہم اسی ولی کے مزار پر جا بیٹھے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ یہاں قبر نہیں ہے۔ یہ ویسے ہی بنی ہوئی ہے۔ یہاں سلام کرنے کے بعد آپ بلوٹ شریف جائیں۔ کاش! انہیں بتا سکتا کہ اصل چیز ارادت ہے قبر یا صاحبِ قبر نہیں۔


3

میں نوری سلطان عبدالوہاب کی بلند و بالا آستانے سے علاقے کا روح پرور نظارہ کر رہا تھا۔تاریخ، تہذیب، خوراک، روزگار، سیاست۔۔۔ یوں کہیے کہ پاکستان میں حیات کا سب سے بڑا دھارا میرے سامنے رواں دواں تھا۔اس کے نام بھی اس کی عظمت کی دلیل ہیں۔۔۔انڈس ،سندھیا، سندھو ، سندھ، اباسین ،نیلاب اورشیر دریاـ۔۔۔! دور اس کی ایک کچھار ''غازی بروٹھا'' دکھائی دے رہی ہے ۔ ڈیم اور نیلاب کے درمیان ''ہرو'' کا پانی شیر دھاروں میں شامل ہوتا ہے ۔یہی وہ مقام ہے جہاں دھاڑتا دریا دم سادھ لیتا ہے۔نہ کوئی موج نہ آواز۔اٹک خورد اور مکھڈ کے درمیان بحری سفر کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے کیے گئے حالیہ دریائی سروے کے مطابق یہاں دریا بہت گہرا ہے۔یہی گہرائی خاموشی کا راز ہے ۔ اسی خاموشی سے باغ نیلاب کی شہرت عبارت ہے کیوں کہ گھاٹ کے لیے یہ بہترین جگہ تھی جہاں سے صدیوں دریا عبور کیا جاتا رہا۔

دریا کے پار دور تک خیبر پختون خوا کا سرسبز میدان ہے۔ اوہنڈ پتن (صوابی) اور مکھڈ (اٹک) کا یہ درمیانی ٹکڑا تاریخی اور تہذیبی اہمیت کا حامل ہے۔ پنجاب و پختون خوا کا سنگھم ، گندھارا تہذیب کا مرکز، دنیا کے پہلے زبان دان پانینی کی جائے پیدائش، سکندر سمیت سینکڑوں کی گزرگاہ، محمود و انند اور خوارزم و چنگیز کا میدان جنگ ـــــ اور بے شمار تاریخ پیکاروں کا مرکز۔ اگر ذوقِ سماعت ہو تو گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور تلواروں کی جھنکار کی بے صوت صدائیں صاف سنائی دیتی ہیں ۔شہرت، ناموری، کشور کشائی اور اندھی لوٹ مار کے لیے بار بار اس نیلگوں امرت کو گدلایا گیا۔ گاجروں اور مولیوں کو بھی اس طرح نہیں کاٹا جاتا جس نفرت اور وحشت سے نیلاب کے ان کناروں پر انسان کٹا ہے۔ مسلسل وحشتوں کا شکار باغ نیلاب کے باسیوں پر صدیوں کیا قیامتیں ٹوٹتی رہیں ۔۔۔؟ کسی مورخ کو اس سے کوئی غرض نہیں رہی۔

اب تک باغ نیلاب پر کوئی ڈاکومینٹری نہیں بنی۔ کسی فلم کا کوئی سین نہیں فلمایا گیا۔دنیا کے اس حسین '' ٹوٹے'' پوٹھوہار کا صدیوں سے بند ''بوہا'' کھلنے کے لیے سید آل عمران کی ''سم سم'' کے انتظار میں ہے۔ ان کی طلسماتی آواز کی لطیف قوسیں کروڑوں سماعتوں کو چھوتی گلوب کے آخری کونے کو جا چومتی ہیں۔

باغ نیلاب پرسب سے پہلے رضا علی عابدی کی نظر پڑی اور'' شیر دریا'' میں اس کا ذکر ہوا۔ دانشور سفرنامہ نگار سلمان رشید یہاں سے گزر کرسوجندہ باٹا اور کالا چٹا پہاڑ میں پراسرار قلعے کے کھنڈرات تک پہنچ گئے لیکن باغ نیلاب نہیں رکے۔مولانا محمد اسماعیل ریحان جلال الدین خوارزم کے نقشِ پا کی تلاش میں کراچی سے یہاں چلے آئے۔ قمر عبداللہ نے '' بھاٹا تاریخ کے آئینے میں'' باغ نیلاب کا سرسری تذکرہ کیا ہے اورایک مقامی محقق عمران خان کھٹڑ اس پر تفصیلی کتاب شائع کرنے والے ہیں۔

بات قمر عبداللہ کی اسی کتاب سے شروع ہوئی تھی جو وہ اپنے مادرِِ علمی گورنمنٹ ہائی سکول بھاٹا کی صد سالہ یومِ تاسیس کے موقع پرشائع کروا رہے ہیں۔ اپنے تعلیمی ادارے کے ساتھ ان کے مخلصانہ تعلق کا یہ باوقاراظہارہے۔ بھاٹہ کی تاریخ، اقوام، شخصیات اور مقامات وغیرہ کا مفصل احوال انتہائی سادہ اور دلنشین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ لفظ لفظ سے مٹی کی محبت کی خوشبو آ رہی ہے۔۔۔بھاٹا اور اہل بھاٹاکے مقدر پر رشک آ رہا ہے کہ اس گاوں کی پانچ چھ سو سالہ تاریخ اور شخصیات پر اتنا تحقیقی کام ہوا ہے۔ ہمارے ہاں گاوں گوٹھ اور قصبے تو درکنار بے شمار چھوٹے بڑے شہر ایسے ہیں جنہیں قمر تو کیا، اب تک کوئی عبداللہ نہیں ملا۔

قمر عبداللہ افسانہ نگار، ناول نگار، صوفی اور شاعر ہیں۔ ہر شعبے کا حق کتاب کی صورت میں ادا کر چکے ہیں۔ عربی شاہ قلندر پر ان کی کتاب ''جلوہ عشق'' اہلِ تصوف سے داد وصول کر چکی ہے۔ اس لیے " بھاٹہ تاریخ کے آئینے میں'' ان کی صوفیانہ خوش خیالی کی جھلکیاں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ تاریخ کے پرخار دشت میں قدم رکھاہے ۔ اس میدان کی وسعتیں دیکھتے ہوئے اس کتاب میں گنجائشیں یقیناً ہوں گی۔ لیکن انہوں نے بھاٹا کے حوالے سے مستقبل کے مورخ اور محقق کے لیے بنیادی کام کر دیا ہے۔

ہمیں امید ہے کہ اب وہ کھٹڑ تاریخ پر باقاعدہ تحقیق کریں گے اور اس کی الجھی گھتیاں سلجھانے کی کوشش کریں گے ۔مثلاً کھٹڑ خان جس کی شکست کے بعد کھٹڑ سحر سامری کے زیرِ اثر ہندو ہو گئے اورحضرت نوری سلطان جنہوں نے اس سحر کو توڑاکے عہد میں صدیوں کا فرق ہے۔

میں نوری سلطان کے تکیے سے اترا اورقلعے کے کھنڈرات کی طرف چل پڑا۔ راستے میں ہزاروں قبروں نے حیرت زدہ کر دیا۔۔! وحشت ۔۔۔؟ سیلاب ۔۔۔؟ آسمانی بجلی۔۔۔؟ قحط ۔۔۔ ؟ طاعون۔۔۔؟ یا پھر سحرِ سامری ۔۔۔؟ میرے گائیڈ سفیر نے بتایا کہ نیلاب تا سوجندہ بھاٹا انسانوں کا قبرستان ہے۔ کہتے ہیں کہ اس علاقے میں طاعون پھیل گیا تھا۔

ایک گھنٹے کے پیدل سفر کے بعد قلعہ کے آثار واضح طور پر دکھائی دیے۔ کھنڈر بتا رہے ہیں کہ قلعہ دریا سے کافی اوپر دائرے کی صورت میں تھا اور اس کے اطراف میں پانی کا حصار تھا۔ اس کا رقبہ آئن، برنڈ اور بارل کی قلعہ نما چوکیوں سے بڑا ہے۔ حملہ آوروں کی عین گزرگاہ میں یہ کس نے کھڑا کیا؟کہیں ہندو شاہیہ قلعوں نندنہ، لوہ کوٹ اور پھروالہ کا تسلسل تو نہیں ؟ لیکن تاریخ خاموش ہے۔ تاریخ خوارزم شاہی میں گھاٹ کو ذکر تو ہے لیکن قلعہ کا نہیں۔ بابر اپنی یاداشتوں میں 18 فروری 1519 کے واقعات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ''۔ ۔ ۔ پندرہ میل نیچے نیلاب کے باشندے زرہ بکتر سے مزین ایک تازہ دم گھوڑے اورتین سو شاہ رخیوں کا تحفہ لیے میرا انتظار کر رہے تھے۔'' شیر شاہ سوری کی جرنیلی سڑک سنار،چٹگانگ تا نیلاب گھاٹ تک تھی۔ اکبراعظم نے 1583 میں اٹک قلعہ بنوایا اور جرنیلی سڑک کا رخ باغ نیلاب کے بجائے خیرآباد ہو گیا ــــــ۔

سفیر نے بتایا کہ دریا چڑھا ہوا ہے ورنہ دریا ئی چٹانوں پر ہندو دیوی دیوتاوں کی تصاویر واضح طور پردکھائی دیتی ہیں۔ تقسیم سے پہلے تک باغ نیلاب میں کھٹڑ موجود تھے۔ لیکن اب پاکستان میں کسی ہندو کھٹڑ اور انڈیا میں کسی مسلمان کھٹڑ کا ملنا مشکل ہے۔انڈین کھتری و جاٹ کا اور پاکستانی کھٹڑ وں کی اکثریت علوی سادات کا دعوی کرتی ہے۔ مورخ بھی کھٹڑوں کے حوالے سے متضاد رائے رکھتے ہیں۔ سٹیڈ مین ـــ اعوان، گریفن ــــ خراسانی، کرے کرافٹ ــــ ہندی اورجنرل کننگم انہیں یو چی (گجر) قرار دیتا ہے جب کہ'' پنجاب کاسٹس'' کے مصنف ڈینزل ابٹسن ان کے بارے میں اپنی رائے نہیں دے سکے ۔ ''پنجابی مسلمان" کے مصنف جے ایم وائکلی کے مطابق جن مسلمانوں کا خود کو مغل کہنا روایت ہےان میں کھٹڑ شامل ہیں۔معروف فرنچ اسکالرکرسٹوفر جیفری لوٹ نے ''اے ہسٹری آف پاکستان اینڈ اٹس اوریجن'' میں تاریخ دانوں کے حوالے سے کھٹڑوں کو کشان کہا ہے۔ مہاراجہ کنشک کھٹ رائے کی نسل میں سے تھے۔ کہیں '' کھٹڑ'' کھٹ رائے سے ماخوذ تو نہیں ؟گریفن کے نظریے کی تحقیق کے لیے خراسان کا رختِ سفر باندھا تو وادی کرم میں'' طور ''قبیلے نے گھیراو کر لیا کہ واپس جاو ،ہم راجپو ت ہیں ، خراسانی نہیں ۔

کھٹڑ خود بھی اس حوالے سے متفق نہیں ہیں۔ محمد حیات ــــ چوہان راجپوت، شوکت حیات ــــ بربر، اورکھٹڑ مورخوں کا جمہور خود کو عربی کہتا ہے۔ان میں کچھ حضرت حضرت عباس علمدارؒ کا علم اٹھائے ہیں اور کچھ حضرت محمد بن حنفیہ ؒ کا۔ اتفاق ہے تو سالار قطب شاہ پر ہے۔۔۔ جو تاریخ کے نیلاب کا ایک دھنک رنگ دھارا ہے۔۔۔ ہر رنگ کے روپہلی شیڈز ہیں۔ ایک جھلک مرات مسعودی کے مصنف عبدالرحمن چشتی کی زبانی ملاحظہ ہو: ''۔۔۔دل میں نسب کے بارے میں وہم ہوا۔۔۔ خواب میں دیکھا کہ سلطان الشہداء (قطب شاہ) سفید گھوڑے پرتشریف لارہے ہیں قریب آ کر فرمایا ــــــ آو! آج آپ کو اجداد کی قبروں کی زیارت کرواتے ہیں تاکہ نسب کا شبہ دورہوجائے۔۔۔ اور پھر سالار ساہو تا محمد حنفیہ ــــــ ایک ایک کی زیارت کراونے کے بعد زیارت اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالٰی وجہہ کے لیے روانہ ہوئے۔۔۔ میں نے دور سے دیکھا کہ اسداللہ الغالب صلواة اللہ علیہ فاختائی لباس میں درِ کعبہ پر تکیہ لگائے تشریف فرما ہیں ــــــــ ۔''
میں نے کتابی سرہانے رکھی اور سو گیا۔ خواب میں دیکھا کہ قیامت برپا ہے۔ میرے دائیں شجروں کا سفید اوربائیں سرمئی نیلاب ہے۔۔۔ تشکیک کے جرم میں مجھے دوسرے میں اچھال دیا گیا۔