ہفتہ، 4 فروری، 2023

جولیاں جائے تعلیم نہیں تھی

0 تبصرے

جولیاں جان لیوا نام ہے۔اسے سنتے ہی  دھیان ہم جولیوں سے ہوتا ہوا، مرادوں بھری جھولیوں کے طرف چل نکلتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ٹیکسلا جب شاہ ڈھیری کہلاتا  تھا۔۔۔ تو  ان دنوں ا س ڈھیری کو  جائے ولیاں کہا جانے لگا جو وقت کے ساتھ  جولیاں ہو گیا۔اس جگہ کا اصل نام   کیا ہے؟ اس  حوالے سے تاریخ۔۔۔ جولیاں کی  اس خانقاہ کی طرح خاموش ہے۔

مقامی زبان میں جا جگہ کو کہتے ہیں، جائے ولیاں فارسی ترکیب ہے،  جولیاں  اورگریکو رومن  نام جولیان میں ایک نقطے کا فرق ہے۔ٹیکسلا شہر کی طرح    اس پہاڑی  خانقاہ کے نام میں بھی کئی  تہذیبیں جھلکتی ہیں۔

پنجاب و پختون خواہ کے سنگم پر واقع  اس ڈھیری  کو بجا طور پر جائے ولیاں یعنی سیٹ آف سینٹس کہا گیا ہے کہ صوفی، سنت، سادھو ، جوگی اور بھکشو ایسے ہی ویرانے پسند کرتے ہیں ۔ کَپِل وَستُو  کی روشنی نے  ہزاروں چوٹیوں کو  چمکایا  لیکن جو چمک جولیاں کے حصے میں آئی وہ کم کم چوٹیوں کو نصیب ہوئی۔ اس کا شمار ٹاپ ٹورسٹ ڈسٹینشنز میں ہوتا ہے۔ مہاتما گاندھی سے لے کر پرنس  چارلس تک  ایک دنیا یہاں آ چکی ہے۔بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے تو یہ کسی جنت سے کم نہیں ہے۔ اہل علم   کی اکثریت یہاں آتی ،  اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتی اور  اپنی خوشی اور عقیدت کا اظہار، ٹویٹس،  وڈیوز، آرٹیکلز اور تھیسز کی صورت میں کرتی ہے۔ ملک بھر کے تعلیمی ادارے  اپنے تعلیمی و تفریحی ٹرپس  کے لیے   جولیاں کو بہترین انتخاب سمجھتے ہیں۔

ہم نے بچپن سے سن رکھا تھا کہ  جولیاں میں  دنیا کی پہلی یونیورسٹی   کے آثار ہیں۔ اس لیے  ہم نے جب جب  جولیاں کمپلیکس  میں قدم رکھا تو عقیدتاً  اس  کی خاک اپنے سر اور چہرے پر ملی۔

جولیاں کمپلیکس کے  دو حصے ہیں۔ پہلے  خانقاہ  ہے۔ جہاں  منتی اسٹوپوں پر   بدھا کی شبہیں ہیں۔ آرٹ ورک  اتنا شاندار ہے ۔۔۔کہ دل، دماغ، آنکھیں، قلم،   کیمرے سب  اس پر فِدا ہیں۔   بدھا کے چہرے کی مسکراہٹ کا تخیقی حسن نظر پتھرا اور دل پگھلا دیتا ہے۔ اب زیادہ تر مورتیاں ٹیکسلا میوزیم میں پڑی ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے صنم تراشوں نے عشق کو حیرت میں ڈال رکھا تھا۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اُس دور میں جولیاں، ٹیکسلا اور گندھارا کی  فضاؤں میں روحانی سرشاری کا کیا عالم ہو گا جب بے خودبھکشو مرادوں کی جھولیاں بھرنے دور دراز  مقامات سے  جولیاں آتے اور ان کا طواف کرتے تھے۔ شفا بخش بدھا کی ناف میں انگلی رکھتے ہی سر سے پاؤں تک مسیحائی کی تاثیرمحسوس کرتے تھے۔  رہی سہی  کمی قریبی ڈھیری سے مشت بھر خاکِ شفا سے نکل جاتی  تھی۔

جولیاں کی یہ خانقاہ کشانوں کی  معاشی اور تہذیبی خوشحالی کی آئینہ دار ہے۔  بدھا نے صرف راج گدی ہی نہیں تیاگی تھی، وشواس کے رنگین   پردے بھی  تار تار کر دیے تھے مگر مہایان نے بدھا کی  مدھم مارگم گچامی کی تعلیمات تیاگ کر اسے  بھگوان بنا دیا  ۔ اس کی مورتیاں اس کثرت سے بنوائیں کہ گندھارا میں  اب بھی زیر زمین ہزاروں مورتیاں دفن ہیں۔ بدھا نے  کہا تھا کہ ۔۔۔سروم دکھم ۔۔۔اور اس بے کراں دکھ سے نجات کےلیے راستی کے  ہشت اصول دیے ۔۔۔ لیکن   مہایان نے  نروان کی شاہراہ پر وشواش کے ریشمی پردے آویزاں کر دیے۔

کمپلیکس کے اگلے حصے میں ایک کورٹ یارڈ ہے۔ یہی وہ کورٹ یارڈ ہے جسے دنیا کی پہلی یونیورسٹی کہا جاتا ہے۔ آپ جیسے ہی خانقاہ سے اس کورڈ یارڈ میں قدم رکھتے ہیں تو بائیں جانب ایک مندر میں بدھا کو گیان دھیان میں ڈوبا ہوا پاتے ہیں۔ اس احاطہ میں تقریباً  26 کھولیاں، ایک تالاب اور ایک باتھ روم ہے۔ اتنے ہی کمرے دوسری منزل پر تھے جو گر چکے  ہیں۔ ہر کمرے میں دو طاق ہیں۔کورٹ یارڈ میں لگی تختی بتاتی ہے کہ ودیارتھی ایک میں دیپک اور دوسری میں پشتک رکھتے تھے۔ گندھارا  کی زیادہ تر  خانقاہوں کے آثار ایسے ہی ہیں۔ چھوٹے  اور سادہ کمرے۔ تمام کمروں کا ایک دروازہ جو صحن یا تالاب  کی طرف کھلتا ہے۔

ہمارا خیال تھا کہ کورٹ یارڈ  کے اگلے حصے میں  لائبریری، لیبارٹری اور اوبزرویٹری   وغیرہ کے آثار ہوں گے لیکن وہاں  کچن، کچن انچارج کا کمرہ، گودام، اناج پیسنے، پکانے، کھانے اور برتن دھونے وغیرہ کی جگہوں  کے آثار  ہیں۔

اس احاطہ میں  ایک  اسمبلی ہال بھی ہے۔ ایسے ہی  اسمبلی ہال    گندھارا کی  کچھ  اور   خانقاہوں  میں بھی ملتے  ہیں۔ ویساک اور دیگر اہم  موقعوں پر  جب زائرین مل کر ورد کرتے اور   گیت گاتے ہوں گے  تو جولیاں کی خاموشیوں میں طلسم بکھر جاتا ہو گا۔

بدھم شرنم گچھامی                                                      

دھمم شرنم گھچامی

سنگھم شرنم گھچامی 

مگر جدت پسند مہایان نے بھیڑ ماؤنڈ ، سرکپ اور سر سکھ کی بجائے اس  پہاڑی ویرانے میں یہ خانقاہ کیوں بنائی؟؟؟ ایسا اس لیے کیا گیا کہ ٹیکسلا ہمیشہ حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے۔ بھکشوؤں کی حفاظت کے پیش نظر خانقاہوں کے لیے ایسے  ویرانوں  کا انتخاب کیا گیا ۔اٹلی کے معرف آرکیالوجست ڈاکٹر لوقا ماریہ اولوویری کا حال میں ایک آرٹیکل منظر عام پر آیا ہے جس میں انہوں نے جولیاں سمیت بہت سی بدھسٹ سائٹس کو خانقاہیں اور پناہ گاہیں لکھا ہے۔

ٹیکسلا کا شمار گندھارا کے ان مقامات میں ہوتا ہے جہاں بدھ مت کا پھیلاؤ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اشوکا نے دھرما راجیکا سے بدھ زیارت گاہوں کی تعمیر کی جو شروعات کی تھی کشانوں نے اسے شاندار انداز میں آگے بڑھایا۔بعض زیارت گاہوں کے ساتھ زائرین کے لیے اقامت گاہیں بھی  تعمیر  کی گئیں۔جولیاں بھی ایک ایسی ہی اقامتی  خانقاہ  دکھائی دیتی ہے۔الیگزینڈر کنگھم  نے سروے آف انڈیا   اور  جون مارشل نے گائیڈ ٹو ٹیکسلا میں اسے خانقاہ  ہی لکھا ہے۔

راولپنڈی گزیٹیئر 1893-94 کے مطابق ''جاولی کی قدیم باقیات پانچ خستہ حال سٹوپوں اور دو مندروں میں مشتمل ہیں۔ ان سبھی پر تحقیق کی جا چکی ہے مگر قابل قدر نتائج سامنے نہیں آئے''۔

ٹیکسلا کے دیگر مقامات کی طرح جولیاں کی اس  خانقاہ   بھی 1980 میں ورلڈ ہیریٹیج سائٹس میں شامل کر لیا گیا۔یہاں لگا   یونیسکو کا معلوماتی   بورڈ بھی  اسے خانقاہ ہی بتاتا ہے۔اگر آپ ٹیکسلا سے جولیاں کا سفر کریں تو  آپ کو راہنمائی کے لیے لگائے گئے بورڈز پر  آثار قدیمہ جولیاں یا جولیاں خانقاہ  ہی لکھا ہوا ملے گا۔

    ڈاکٹر احمد حسن دانی  کی ہسٹورک سٹی آف ٹیکسلا  کے مطابق  جولیاں  بدھ زائرین کی آرام گاہوں یا میٹنگ پوائنٹس میں سے ایک تھی جو مختلف ممالک سے یہاں تک کا سفر کرتے اور مانسہرہ سے مانکیالہ کی زیارتوں پر حاضری دیتے تھے ۔ڈاکٹر  دانی نے یہاں سے ملنے والے نَوادِرات کے جو تفصیل دی ہے اس میں سکّے، صراحیاں، چینکیں، کٹورے، مرتبان کے ڈھکن، زیورات، انگوٹھیاں اورہار وغیرہ شامل ہیں۔اس فہرست میں ایک دوات بھی  ہے۔ اس بنیاد  پر آپ اسے اسکول، کالج،  یونیورسٹی، آشرم، پاٹ شالا  یا وشوودیالہ کا درجہ دینا چاہیں تو جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی  کہ ایک خانقاہی  سرائے میں کوئی درسگاہ نہیں ہو سکتی ۔۔۔بلکہ اصل بات  یہیں سے شروع  ہوتی ہے کہ آخر دنیا کی قدیم ترین درسگاہ   اس سرائے  سے منسوب کیسے ہوئی؟ اگر دنیا کی پہلی  یونیورسٹی یہاں نہیں   تو  پھر ٹیکسلا میں کس جگہ تھی؟ تھی بھی یا نہیں؟  اگر تھی تو پھر   وزٹرز۔۔۔ ''کہاں ہے، کس طرف کو ہے ،کدھر ہے'' ۔۔۔کی تصویر کیوں بنے ہوئے ہیں؟   یہ اور ان جیسے بہت سے سوالات کے جوابات کے لیے دیکھیے ہمارا اگلا آرٹیکل : '' تکشاشیلا  یونیورسٹی :  اک کہانی ہے اور کچھ بھی نہیں ''