اتوار، 1 نومبر، 2020

قلعہ گری ٹیکسلا میں نہیں ہے

0 تبصرے

لفظ 'گری' سماعت کی گلیوں سے گزرتا ہے تو دہن اخروٹ اور بادام کے ذائقوں سے تر ہو جاتا ہے۔ ہم  گری کو گڑھی کی رواں شکل سمجھتے رہے لیکن گری چیزے دیگری نکلا۔ رگ وید میں سرسوتی کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ گری سے ساگر کی اور جاتا ہے۔ اس لیے ٹیکسلا سے سری لنکا تک پہاڑی چوٹیوں کے نام میں گری بطور لاحقہ راج کرتا نظر آتا ہے۔ ابوالفضل بیہقی سے ابوالفضل علامی تک مختلف مورخین کے ہاں اس جگہ کا نام گری، کری، کبری، گیری، کیری، کبیری، کیکی وغیرہ ملتا ہے۔ اہلِ ٹسکلا اسے گِڑی کہتے ہیں۔

گری مارگلہ کے دامن میں ہے۔ مارگلہ کے ایک طرف بدھ مت کا تاثر غالب ہے اور دوسری طرف اسلام کی چھاپ مقابلتاً نئی ہے۔ اسلام آباد بننے سے  بہت پہلے مارگلہ میں سبز چولوں کی بہار آ چکی تھی۔ شاہ اللہ دتا، گولڑہ اور بری امام کی راہیں گری سے گزرتی تھیں۔ زائر، تاجر اور مسافر گری کے چشموں کا پانی پیتے، بن فقیراں میں نہاتے، حنجیرہ (شاہ اللہ دتا) کی غاروں میں جا قیام کرتے تھے۔

ہم ٹیکسلا میوزیم کی گیلریوں میں گری سے ملنے والے نوادرات تلاشتے، آشوکا کے دھرما راجیکا کا طواف کرتے، شاہ ڈھیری سے ہوتے، ڈھوک خرم پراچہ سے گزرتے، آہستہ خرام بھکشوؤں کی طرح برساتی کس کے پتھروں کے سنگ سنگ مارگلہ کی آغوش میں گوشہ گیروں کی جنت گری جا پہنچے۔

گری دو حصوں (گری ون اور گری ٹو) پر مشتمل ہے۔ تقریباً چار ' لی ' پر پھیلے گری کمپلیکس کے درمیان ایک تالاب، چھوٹی مسجد، پاک دامن بیبیوں کی زیارت، پرانا برگد اور پرشور چشمہ ہے۔ ڈیڑھ سو سے زائد سنگی زینے پہاڑی کی ہموار چوٹی پر بدھی فیض کے قدیم سر چشمے کی باقیات تک پہنچا دیتے ہیں۔

مارگلہ کے اس سرسبز دامن  کو کشانوں نے گیروی رنگوں سے بھر دیا۔ جہاں پپہیوں کا شور تھا وہاں بدھ منتروں کی ہنہناہٹ سنائی دینے لگی۔ سردیوں میں برفانی علاقوں کے بھکشوؤں کی آمد سے گری کی رونقیں اور بڑھ جاتیں۔ بہار کے رنگ اور ساون کی گھٹائیں جب گری کا گھیراؤ کرتیں تو بھکشوؤں کے دل کے کنول کھل اٹھتے۔

ٹیکسلا میں دوسری صدی عیسوی تک 'ایشیا کے نور' کی چمک میں یونانی دیوتاؤں کے دمک بھی شامل ہو چکی تھی۔ کشان مہایان کا عہد ہے۔ ان ترقی پسند بھکشوؤں کا عقیدہ تھا کہ صرف مہایاں (بڑی سواری) ہی دکھی انسانیت کو سکون آشنا کر سکتی ہے۔

کشانوں کے بعد وسط ایشیا سے اٹھنے والی کالی آندھی گندھارا پر بجلی بن کر گری۔ مہر کلا بدھوں پر قہر بن کر ٹوٹا۔ سیاہ طینت ہنوں نے سرسبز مارگلہ کو بھکشوؤں کے خون سے سرخ  کر دیا۔ جشنِ فتح میں بھکشوؤں کی کھوپڑیوں میں شرابیں پی گئیں۔ کسی دیوتا نے آواز سنی، نہ کوئی منتر کام آیا۔ راج ترنگنی کے مطابق بدھوں کے غارت گری میں برہمن مہر کلا کے معاون تھے۔ 

اس کے بعد گری تو کیا خود ٹیکسلا کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ شہر خاک کی چادر تان کر سو گیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان خاکی ڈھیریوں میں کیا چھپا ہے۔ سینہ بہ سینہ یہ روایت ضرور سفر کرتی رہی کہ یہ شاہوں کی ڈھیریاں ہیں۔ جنہیں 1913ء میں جان مارشل کے دستِ مسیحا نے پھر زندہ کر دیا۔ گائیڈ ٹو ٹیکسلا (کیمبرج ایڈیشن) میں انہوں نے گری کے  عنوان سے مفصل مضمون لکھا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بیرونی یلغار کی صورت میں دھرما راجیکا اور دیگر قریبی خانقاہوں کے بھکشوؤں کی یہ جائے پناہ تھی۔ اس کی دور افتادگی بتاتی ہے کہ بھلے یہ جتنا بھی عرصہ آباد رہا ہو اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔

یہ بات زمانے سے مشہور چلی آرہی ہے کہ یہ بدھ خانقاہ  بعد میں غزنوی قلعہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی اور بت شکن کی آل کے زوال کی داستان کا دیباچہ بھی یہیں رقم ہوا۔ لیکن جان مارشل کی 'راہنمائے ٹیکسلا' اس کی واحد شناخت بدھی خانقاہ کے طور پر کرتی ہے۔ ڈاکٹر اشرف کا آثاریاتی سروے اور ایک تازہ آثاریاتی رپورٹ بھی جان مارشل کی تائید کر رہی ہے۔ لیکن بات چونکہ آلِ بت شکن کی ہے، جس کی تصدیق ڈاکٹر احمد حسن دانی نے کی ہوئی ہے، اس لیے اسلام آباد کے داخلی دروازوں پر واقع گڑی اور روات کے نام نہاد قلعوں کی تاریخ کی درستی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

بدھ، 30 ستمبر، 2020

روات رباط کی بگڑی ہوئی شکل نہیں ہے

0 تبصرے


جی ٹی روڈ پر قلعہ روات کے باہر لگے معلوماتی بورڈ کے مطابق 'روات رباط کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ یہ قلعہ سلطان محمود غزنوی کے بیٹے مسعود کے ساتھ بھی منسوب کیا جاتا ہے جسے اس کے لشکر کے باغی سپاہیوں نے یہاں گرفتار کیا اور بعد میں ٹیکسلا کے نزدیک گڑی میں قتل کر دیا۔'

 جرنیلی سڑک کے دہانے سرائے راجو، سرائے خربوزہ، سرائے کالا، سرائے کھولا اور سرائے بیگم ایسی کچی پکی سراؤں کی دیسی قطار میں عربی لفظ رباط سراب سی دلفریبی رکھتا ہے۔ دھیان کجھور کی شاخوں سے چھناتا ہوا کاروان کی گھنٹیوں میں کھو جاتا ہے۔ پوٹھوہار مکران و مہران کی طرح ابنِ قاسم کی زد میں نہیں رہا۔ لیکن کچھ عرب مورخوں نے غزنویوں کا مارگلہ تک تعاقب کیا ہے۔ جنہیں تاریخ کا فرشتہ اپنے تخیل کے پروں پر جہلم لے آیا اور یوں غزنوی تاریخ سرائے روات سے منسوب ہو گئی۔

  غزنوی تاریخ سے اس ربط نے اس عمارت کی قدامت میں ہی اضافہ نہیں کیا بلکہ اسے عظمت اور شوکت بھی عطا کی ہے۔ اور ایسا محکمہء آثارِ قدیمہ کے کسی گھاگ افسر کی کاروائی نہیں جس نے اس شکستہ عمارت کو چمکانے اور سیاحوں کو چونکانے کے لیے ایسا کیا ہو۔ بلکہ یہ ایک تاریخی غلط فہمی ہے۔

 سلطان مسعود غزنوی کا وسط ایشیا میں حکمرانی کا خواب ٹوٹا تو وہ خزانے سمیت غزنی سے لاہور کے لیے نکلا۔ دریا کراس کرتے ہوئے لشکریوں نے خزانہ لوٹ لیا۔ مسعود رباط مارگلہ میں قلعہ بند ہو گیا۔ لیکن پکڑا گیا اور قلعہ گری میں قتل کر دیا گیا۔ مورخین کی اکثریت نے جائے وقوعہ دریائے سندھ (اٹک) بتائی ہے۔ لیکن پانچ سو سال بعد ابوالقاسم فرشتہ نے دریائے سندھ کے ساتھ دریائے جہلم کا اضافہ کر دیا۔

 اکبر نامہ میں ابوالفضل دسمبر 1592ء میں کشمیر سے اکبر کی واپسی کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ '....قافلہ راول پنڈی، رباط، نگرکوٹ، ٹھہٹہ، و سرائی خسرو سے ہوتا سرائی ہر میں جا رکا۔'یہاں راولپنڈی کے علاوہ کوئی نام درست نہیں ہے۔ یہیں سے روات سرائے کے لیے لفظ رباط کا سفر شروع ہوتا ہے۔

 یہ عمارت جرنیلی سڑک کے دہانے ہے۔ تھوڑے فاصلے پر مانکیالہ اسٹوپا ہے  لیکن گیارہویں سے سولہویں صدی تک کے  سفر ناموں بلکہ کسی بھی تحریر میں یہ عمارت تو کیا اس علاقے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ پہلا ذکر اطالوی پادری مونسیراٹ کی کمنٹری میں ملتا ہے۔ جس کے مطابق1581ء میں اکبر کے لشکر نے مانکیالہ کے بعد  Rhavadum میں پڑاؤ کیا۔ اکبر کا ہندوستان میں مبارک علی نے اس کا ترجمہ روات کیا ہے۔ 'وجہ تسمیہ دیہہ پرگنہ پھروالہ دانگلی' میں مانکیالہ اور روات کے درمیان کوئی ایک گاؤں بھی ایسا نہیں ہے جس کا نام حرف 'ر' سے شروع ہوتا ہو۔ دو اور سفر ناموں میں بھی اس جگہ کا ذکر ہے۔ ایک فرانسیسی جم مرچنٹ Jean Baptiste Tavernier نے 1650ء میں اس سرائے کو اپنے سفر نامے میں roupate  اور سترہویں صدی کے بھوٹانی زائر 'تگ تس راس پا' نے 'RAVATA' لکھا ہے۔

 رباط کے لفظ کو تقویت دنی چند اور برج ناتھ نے بھی دی ہے۔ کیگوہر نامہ کے مطابق آدم خان نے اپنے بھائی اور برادر زادوں کو سرائے رباط میں دفن کیا۔ وجہ تسمیہ دیہہ پرگنہ دان گلی پھرہالہ کے مطابق سلطان سارنگ خان نے سرائے تیار کیا اور نام رباط مشہور ہوا۔

  سن 1765ء میں سکھوں نے اس سرائے کو کھنڈر بنا دیا۔ اس لیے انگریز دور میں بھی اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ دو سو سالہ خستہ حالی کے بعد 1955ء میں اسے محکمہء آثارِ قدیمہ کے حوالے کیا گیا۔ چونکہ مارگلہ کے قریب یا سندھ اور جہلم کے درمیان کسی رباط کا سراغ نہیں ملا، اس لیے یہ خیال عام ہو گیا کہ شاید یہی وہ رباط ہے جہاں مسعود گرفتار ہوا۔فضاؤں میں موجود اس تاثر کو اس کے معلوماتی بورڈ پر درج کر دیا گیا۔  مسعود غزنوی یہاں گرفتار ہوا، نہ ٹیکسلا میں کوئی قلعہ گڑی ہے اور نہ ہی روات رباط کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ (اردو کالم : https://urducolumn.idaraeurdu.org/article/2356)